خیبر پختونخوا کی سرزمین نے ایک بار پھر خون دیکھا۔ خبر یہ ہے کہ ضلع خیبر کے ایک گاؤں میں جیٹ طیاروں کی بمباری سے درجنوں شہری اپنی جانوں سے گئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق 23 سے زیادہ معصوم انسان، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے، شہید ہوئے۔ اس ہول ناک سانحے کی آواز حسبِ معمول مین اسٹریم میڈیا تک نہ پہنچی؛ وہاں خاموشی ہے، مگر سوشل میڈیا پر یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ یوں لگا جیسے لوگ چیخ چیخ کر دنیا کو بتا رہے ہیں کہ ہمارے گھروں پر جو قیامت گزری ہے، وہ محض ایک خبر نہیں، بل کہ زندگی کے چراغوں کا بجھ جانا ہے۔
یہ وہی خیبر ہے، جس نے بارہا جنگ دیکھی ہے۔ کبھی روسی جنگ کے مہاجرین یہاں سے گزرے، کبھی دہشت گردی کے اڈے بنے، کبھی آپریشنوں کے نشانے پر آئے۔ مقامی لوگوں کے لیے یہ اب کوئی نئی بات نہیں کہ اُن کے گھروں پر جنگ کے سائے گہرے ہوں، مگر اس بار کی شدت کچھ اور ہی تھی۔ شہادتوں کی تعداد نے پورے علاقے کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ ہر گھر میں سوگ، ہر آنکھ میں آنسو اور ہر زبان پر یہی سوال ہے:’’ہم کب تک پرائی جنگ کا ایندھن بنتے رہیں گے؟‘‘
پاکستانی معاشرہ ایک عجیب تضاد میں جی رہا ہے۔ جہاں ایک طرف ملکی میڈیا کے بڑے ادارے سیاسی ڈراموں اور ریٹنگ کی دوڑ میں لگے ہیں، وہاں دوسری طرف سوشل میڈیا پر عوام اپنی جان بچا کر سچ کو دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ اس سانحے کی خبریں اخبارات اور ٹی وی پر نہ مل سکیں، لیکن فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ پر ہر طرف چیخ و پکار سنائی دی۔
یہ خاموشی محض اتفاق نہیں، بل کہ ایک رویہ ہے۔ جب بھی ریاستی اداروں کی کارروائیوں میں عام شہری مارے جاتے ہیں، تو میڈیا یا تو آنکھیں بند کر لیتا ہے، یا خبر کو مسخ کرکے پیش کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام کا اعتماد نہ صرف ریاست پر، بل کہ میڈیا پر بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔
کئی پوسٹوں اور تبصروں میں یہ کہا گیا ہے کہ مرنے والے بے گناہ شہری نہیں، بل کہ وہ لوگ تھے، جن کے گھروں میں خوارج نے پناہ لے رکھی تھی۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہو سکتی ہے کہ عسکریت پسند بعض اوقات عام گھروں میں چھپ جاتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عام لوگ اُنھیں روک سکتے ہیں؟
جب کوئی مسلح گروہ آپ کے دروازے پر آکر کہے کہ ہمیں کھانا چاہیے یا رات گزارنے کے لیے جگہ چاہیے، تو کیا آپ کے پاس انکار کرنے کی گنجایش باقی رہتی ہے؟ ہر شخص جانتا ہے کہ نہ کہنے کی قیمت کیا ہوسکتی ہے۔ ایک گولی، ایک دھماکا یا پھر پورے خاندان کا صفایا۔ اس مجبوری کو ریاست کیوں نہیں سمجھتی…… اور جب سیکورٹی ادارے کارروائی کرتے ہیں، تو گھر کے لوگ ہی کیوں نشانے پر آتے ہیں؟ یہ وہ چکی ہے جس کے دو پاٹوں کے درمیان مقامی انسان پستا جا رہا ہے۔
عوام میں ایک تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ کسی ڈالری جنگ کا حصہ ہے۔ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے خطے کو میدانِ جنگ بناتی ہیں اور ریاستیں اُن کے اشاروں پر چل کر اپنی سرزمین کو خاک اور خون میں بدل دیتی ہیں۔ افغانستان کی جنگ کا خمیازہ پاکستان نے بھی بھگتا اور اب بھی وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس جنگ کا اصل فائدہ کسے مل رہا ہے؟ کیا مقامی عوام کے خون کی کوئی قیمت ہے ؟
ریاستی ادارے جب کہتے ہیں کہ ہمیں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کارروائی کرنا ضروری ہے، تو یہ موقف بہ ظاہر درست لگتا ہے…… لیکن اگر دہشت گرد واقعی شہری علاقوں میں گھل مل کر رہ رہے ہیں، تو اس کی اصل وجہ ریاست کی ناکام حکمتِ عملی ہے۔ جب علاقوں کو ترقی، روزگار، تعلیم اور صحت سے محروم رکھا جائے گا، جب عام نوجوان کے پاس اُمید کا کوئی چراغ نہ ہوگا، تو وہ کس طرف جائے گا؟ یہی خلا مسلح گروہ پر کرتے ہیں۔ لہٰذا محض بمباری اور آپریشن مسئلے کا حل نہیں۔ اس سے وقتی ریلیف مل سکتا ہے، مگر مسئلہ جڑ سے ختم نہیں ہوتا۔ مسئلہ تب ختم ہوگا، جب مقامی آبادی کو یہ یقین ہو جائے کہ ریاست اُن کی اپنی ہے اور ریاست اُنھیں اس عذاب سے بچانے کے لیے سنجیدہ ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر شہادت ایک گھر کا چراغ بجھنے کے مترادف ہے۔ آج خیبر میں جو مائیں اپنے بچوں کو دفنا رہی ہیں، کل وہی سوال لے کر ہمارے دروازے پر دستک دے کر پوچھیں گی کہ ’’ہمارے بچوں کا کیا قصور تھا؟‘‘
ان سوالات کا جواب صرف تسلی یا دعا سے نہیں دیا جا سکتا، اس کے لیے ذیل میں دیے گئے عملی اقدامات ضروری ہیں:
٭ متاثرہ خاندانوں کے لیے فوری طبی امداد اور مالی معاوضہ فراہم کیا جائے۔
٭ آزاد اور شفاف تحقیقات کرائے جائیں کہ حملے میں کون مارا گیا اور کیوں؟
٭ مقامی لوگوں کو خوف سے نکالنے کے لیے پُر امن مکالمے اور اعتماد سازی کے اقدامات کیے جائیں ۔
٭تعلیم، روزگار اور بنیادی سہولیات کو ترجیح دی جائے، تاکہ عسکریت پسندوں کا اثر کم ہو۔
خیبر کی بمباری صرف ایک سانحہ نہیں، بل کہ پورے معاشرے کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ جب تک ریاست اور عوام ایک دوسرے پر اعتماد بہ حال نہیں کرتے، تب تک جنگ کی آگ بجھ نہیں سکتی۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو خوف اور لاشوں کی وراثت دینا چاہتے ہیں یا امن اور ترقی کی؟
وقت گزر رہا ہے۔ ہر دن کے ساتھ ایک اور ماں بیٹے سے محروم ہو رہی ہے، ایک اور بچہ یتیم ہو رہا ہے۔ اگر ہم نے اَب بھی حقیقت کا سامنا نہ کیا، تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










