اسرائیل اور بعض خلیجی ممالک کے مابین ہونے والے ’’ابراہیمی معاہدے ‘‘ کی پانچویں سال گرہ کے موقع پر اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے مذاکرات کاروں پر حملہ کیا۔ اس حملے میں مذاکرات کار تو محفوظ رہے، مگر اُن کے محافظین اور قطر کے بعض سرکاری افسر شہید ہوگئے۔ یہ حملہ صرف قطر کی خود مختاری پر نہیں، بل کہ پورے خلیجی سلامتی کے ڈھانچے کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔
اسرائیلی جارحیت کے چند روز بعد، پیر 15 ستمبر کو دوحہ میں ہونے والے عرب سربراہی اجلاس (خلیج تعاون کونسل) سے خطاب کرتے ہوئے امیرِ قطر شیخ تمیم بن احمد الثانی نے کہا کہ اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم میں تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ اُنھوں نے اسے قطر کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر بہ راہِ راست حملہ قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنا، یرغمالیوں کی رہائی کے دعوؤں کو جھوٹ ثابت کرتا ہے اور دراصل ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا ایجنڈا عالمی امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔ اسرائیل کے یہ اقدامات عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔
عراق کے وزیرِ اعظم محمد شیاع السودانی نے اسرائیلی جارحیت کو خطے کے مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ اُنھوں نے عالمی برادری کی خاموشی کو معنی خیز اور دوہرے معیار کی عکاس بتایا اور کہا کہ اسرائیل کی جارحیت اجتماعی سلامتی کے لیے بہ راہِ راست خطرہ ہے۔
عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط نے صہیونی دہشت گردی اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرنے کو وقت کا اہم تقاضا کہا۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے اجلاس کے شرکا پر زور دیا کہ فلسطینیوں کے تحفظ اور 1967ء کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں، یہی امن کا واحد راستہ ہے۔
ترکی، پاکستان، ایران، مصر اور اجلاس میں شریک دیگر ممالک نے بھی اسرائیلی دہشت گردی کی شدید مذمت کی۔ اجلاس کے بعد 25 نِکات پر مشتمل مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ شرکا اسرائیل کے بزدلانہ اور غیر قانونی حملے کی مذمت کرتے ہیں اور قطر کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ اسرائیلی جارحیت، امن کی کوششوں کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ غیر جانب دار ثالث پر حملہ امن مذاکرات کو کم زور کرتا ہے اور قطر پر مزید حملوں کی دھمکیوں کو سختی سے مسترد کیا جاتا ہے۔
اعلامیے میں مزید واضح کیا گیا کہ فلسطین کی سرحدیں 1967ء کے مطابق بہ حال ہونی چاہییں اور اسرائیلی جارحیت کو جواز فراہم کرنے کی ہر کوشش قابلِ مذمت ہے۔
تاہم یہ امر حیران کن تھا کہ اگرچہ اجلاس میں اسرائیل پر شدید تنقید کی گئی، مگر عملی اقدامات کہیں نظر نہ آئے۔ اگر خلیجی ممالک اسرائیل کا جواب حملے سے نہیں دے سکتے تھے، تو کم از کم ابراہیمی معاہدے سے علاحدگی کا اعلان کرتے۔ اسرائیل کے لیے اپنی فضائی حدود بند کرتے یا سفارتی، تجارتی اور اقتصادی تعلقات ہی ختم کر دیتے…… مگر افسوس کہ بات صرف مذمت اور بیانات تک محدود رہی۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آخر عرب ممالک نے اربوں کھربوں کا جنگی سازوسامان کس کے خلاف اور کب استعمال کرنے کے لیے خریدا ہے؟
اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو نے اپنے بیان میں دو ٹوک کہا کہ اسرائیل اپنے دشمن کو نشانہ بنانے کے لیے کسی بھی جگہ کارروائی کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔ اس اعلان سے واضح ہے کہ اگلا ہدف کوئی بھی عرب ملک ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری تجزیوں میں مصر، ترکی اور پاکستان کو بھی ممکنہ اہداف میں شامل کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ جب وہ دو برس تک فلسطینیوں کو نشانہ بناتا رہا، غزہ کو کھنڈرات میں بدل ڈالا، تو مسلم ممالک محض مذمت تک محدود رہے…… اب اُس کے راستے میں کوئی رکاوٹ باقی ہی نہیں رہی۔
دوسری جانب سعودی عرب اور قطر نے امریکہ سے تعلقات نبھانے کے لیے کھربوں ڈالر کے سودے کیے۔ یہاں تک کہ قطر نے صدر ٹرمپ کو ذاتی تحفے کے طور پر 400 ملین ڈالر کا جہاز بھی دیا، لیکن اُسی ٹرمپ نے اسرائیل کو قطر پر حملے کی اجازت دی۔
خلیجی عرب ممالک یہ سمجھتے رہے کہ وہ امریکی چھتری تلے محفوظ ہیں، مگر حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ اب وہ ایک نئی حقیقت کے سامنے کھڑے ہیں……یعنی اسرائیل خطے کی شکل بدلنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، چاہے اس کے لیے وہ اپنے روایتی امریکی اتحادیوں کو بھی نقصان پہنچائے۔
یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ امریکہ کا حفاظتی حصار کبھی عرب ممالک کو اسرائیل سے بچانے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا، بل کہ یہ سب کچھ امریکی مفادات کے تحفظ کا ڈھونگ تھا۔ آج جب یہ حقیقت ننگی ہو کر سامنے آ چکی ہے، خلیجی ممالک کو چاہیے کہ وہ امریکی نظام سے باہر نکل کر اپنا مشترکہ دفاعی نظام قائم کریں اور علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر اپنی بقا کی حکمتِ عملی وضع کریں۔
مگر سوال پھر بھی وہی ہے کہ ’’بلی (امریکہ) کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟‘‘
کیوں کہ سب بلی سے خائف جو ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










