سوات میں جب بھی دہشت گردی سر اُٹھاتی ہے، دہشت گردوں کو دوبارہ آباد کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور ڈالری جنگ کو طول دینے کی سازشیں کی جاتی ہیں…… تب سوات کے عوام حسبِ معمول متحد ہوکر اسے جڑ سے اُکھاڑنے کے لیے میدان میں آتے ہیں۔ ایسے مواقع پر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے اور یہ نعرہ فضا میں گونجنے لگتا ہے کہ ’’یہ دہشت گردی…… نامنظور، یہ غنڈہ گردی…… نامنظور!‘‘
اسی تسلسل میں 19 ستمبر کو ’’سوات قومی جرگہ‘‘ کے زیرِسایہ مٹہ چوک میں ایک پُرامن احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ چیک پوسٹوں، مصنوعی دہشت گردی اور ڈالری جنگ کے خلاف اس احتجاج میں تمام سیاسی جماعتوں کے راہ نما شریک ہوئے۔ وکلا، صحافی اور مختلف سماجی تنظیموں کے نمایندے بھی وہاں موجود تھے، جب کہ عام عوام کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ سب نے یک آواز ہوکر دہشت گردی کو مسترد کیا اور یہ عہد کیا کہ کسی بھی صورت میں دہشت گردی قبول نہیں۔
اس مظاہرے کی تصاویر اور ویڈیوز اَب سوشل میڈیا پر موضوعِ گفت گو ہیں۔ انھی مناظر میں ایک تصویر نامور صحافی فیاض ظفر نے اپنی فیس بک وال پر لگائی، جو دیکھتے ہی دیکھتے توجہ کا مرکز بن گئی۔ یہ تصویر کامریڈ خورشید کی تھی، جو اپنی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ہم راہ احتجاج میں شریک تھے۔
مَیں کچھ دیر تک اس تصویر کو دیکھتا رہا اور دل ہی دل میں اس بہادر باپ کو سلام پیش کیا۔ یاد آیا کہ گذشتہ برس نشاط چوک، مینگورہ میں بھی ایسی ہی ایک مثال قائم ہوئی تھی، مگر اس بار اپنی بچیوں کو باقاعدہ پردے میں لا کر احتجاج میں شریک کرنا میرے لیے حیرانی کا سامان بنا۔
کامریڈ خورشید کا تعلق تحصیل مٹہ کے گاؤں گوالیرئی سے ہے؛ جی ہاں! وہی گاؤں جو مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے، جس نے خون دیا، قربانیاں دیں مگر دہشت گردوں کے آگے سر نہ جھکایا۔
کامریڈ خورشید ایک سیاسی و سماجی کارکن ہیں، ترقی پسند سوچ رکھتے ہیں، بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ ’’سپین سر ادبی تڑون‘‘ اور ’’ویخ زلمیان‘‘ کے سرگرم رکن ہیں، اپنی مٹی اور مادری زبان سے محبت کرتے ہیں اور اس کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں۔
جب مَیں نے کامریڈ سے پوچھا کہ آپ کو یہ خیال کیسے آیا کہ اپنی بچیوں سمیت احتجاج میں شریک ہوں،جب کہ اکثر والدین اپنے بچوں کو ایسے مواقع سے دور رکھتے ہیں؟
وہ مسکرا کر جواباً بولے: ’’ہماری عمر تو بدامنی اور دہشت گردی کے سائے میں گزر گئی، لیکن مَیں نہیں چاہتا کہ میرے بچے وہ سب کچھ دیکھیں اور سہیں جو ہم پہلے ہی سہہ چکے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اُنھیں معلوم ہو کہ ہم کون ہیں، اس مٹی سے ہمارا رشتہ کیا ہے، امن کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟ اس طرح میرے بچوں کو یہ بھی معلوم ہو کہ ریاست کیا ہوتی ہے اور ایک شہری کے حقوق کیا ہیں؟ دہشت گردی کیا ہے، ڈالری جنگ کیا ہے اور یہ جنگ کس نے ہم پر مسلط کی ہے؟ میرے بچوں کو یہ سب جاننا ہوگا، تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ احتجاج کیوں ضروری ہے اور اس میں بچوں کی شرکت کیوں ناگزیر ہے……؟
کامریڈ نے مزید کہا کہ انسان جس بات کی تبلیغ کرتا ہے، اُس پر عمل کی ابتدا اُسے خود کرنی چاہیے۔ ’’مَیں مزاحمت پر یقین رکھتا ہوں، ترقی پسند خیالات رکھتا ہوں اور عورت کو مرد کے برابر اس معاشرے کا اہم رکن سمجھتا ہوں۔ مَیں نے اپنی بچیوں سے کہا کہ تم پر تنقید ہوگی، لوگ طنز کریں گے، اساتذہ سوال اُٹھائیں گے اور ایسے احتجاجوں میں نازیبا رویے بھی دیکھنے کو ملیں گے، لیکن ہمت نہیں ہارنی۔ اپنا دفاع کرنا اور مقصد پر توجہ دینا ہی اصل کام یابی ہے۔‘‘
کامریڈ کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے بچیوں کی تربیت اس طرح کرنی ہے کہ وہ اپنی مٹی سے محبت کرنا سیکھیں اور معاشرے میں فعال کردار ادا کریں۔ آج وہ محض شریک ہوئیں، کل یہی بچیاں احتجاج میں آنے والوں کو پانی پلانے اور خدمت کرنے کے انتظامات بھی سنبھالیں گی۔
کامریڈ خورشید جیسے والدین کی جتنی حوصلہ افزائی کی جائے، کم ہے۔ اس گھٹن زدہ معاشرے میں ایسے لوگ اُمید کے چراغ جلاتے ہیں۔ آج اگر ملالہ یوسف زئی نوبل انعام یافتہ ہے، تو اس کے پیچھے ضیاء الدین یوسف زئی جیسے والد کا ہاتھ ہے۔ اسی طرح خورشید جیسے والدین کو ’’لال سلام‘‘ کہ وہ اپنے بچوں کو محض سسٹم کا’’فرماں بردار پرزہ‘‘ نہیں بناتے، بل کہ باوقار شہری بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسے انسان، جو حق کے لیے آواز اُٹھا سکیں اور حق چھیننے والوں کا گریبان پکڑسکیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










