پاک سعودی دفاعی معاہدہ: سیکورٹی پیراڈائم شفٹ

Blogger Ikram Ullah Arif

پاکستانی وزیرِاعظم کے دورۂ سعودی عرب کے موقع پر فضا ہی میں سعودی طیاروں نے سلامی دی اور پاکستان کے ساتھ ایک باہمی تزویراتی دفاعی معاہدے پر دستخط بھی ہوئے۔ اس معاہدے کے مطابق کسی ایک ملک پر حملہ دونوں ممالک پر حملہ تصور ہوگا، اور دونوں ایک ساتھ جارح کے خلاف کھڑے ہوں گے۔
اپنے وزیرِاعظم کے والہانہ استقبال اور اس معاہدے پر پاکستانی عوام خوش ہیں اور خوشی منانے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ شاید مدتوں بعد ایسا ہوا ہے، ورنہ عموماً سعودی عرب میں پاکستانی حکم رانوں کو ’’مسکین‘‘ کا درجہ دیا جاتا رہا ہے۔ کیوں کہ زیادہ تر ہمارے کرتا دھرتا وہاں مانگنے ہی جاتے رہے ہیں۔ غالباً یہ دورہ اُن چند مواقع میں شامل ہے، جب ہم کچھ مانگنے نہیں گئے، بل کہ سعودی عرب زبانِ قال نہیں، تو زبانِ حال سے بہت کچھ مانگنے کا متمنی رہا۔
یہ حقیقت ہے کہ عرب بادشاہتیں اپنے دفاع کے لیے دوسروں پر انحصار کرتی ہیں۔ اس وقت دنیا میں امریکہ کے سب سے زیادہ بیرونِ ملک فوجی اڈے عرب دنیا میں ہیں۔ بادشاہوں کا بیش تر اسلحہ امریکی ساختہ ہے اور ان کے کھربوں ڈالر امریکی اور مغربی بینکوں میں جمع ہیں۔ اس سب کے باوجود امریکہ، تمام عرب ممالک کے مقابلے میں، کھلے عام اسرائیل کا حمایتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسرائیل نے قطر پر جارحانہ حملہ کیا، تو امریکہ نے مذمت تو نہ کی، صرف افسوس کا اظہار کیا۔ نتیجتاً عربوں کو اپنی سلامتی کی فکر لاحق ہوگئی اور سب پر یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ امریکہ کسی بھی وقت آنکھیں بدل سکتا ہے۔
حالیہ امریکی بے وفائی نے عربوں کو یاد دلایا کہ اُن کا ایک ’’مسکین‘‘ بھائی بھی ہے، جس نے پہلی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی کچھ نہ کچھ عزت بچائی تھی۔ پھر جب حرمِ شریف میں حاجیوں کو یرغمال بنایا گیا، تو پاکستانی فوج ہی نے حرم کو ناپاک قدموں سے پاک کیا۔
چند ماہ قبل جب بھارت تکبر کے نشے میں تھا، تو باوجود کم تعداد، کم زور معیشت اور غیر مستحکم سیاسی حالات کے، پاکستان نے بھارت کے خلاف وہ کارنامہ انجام دیا، جو آج تک بھارتی قیادت اور فوج کی سمجھ سے باہر ہے۔
مزید برآں، قطر میں منعقدہ حالیہ ’’عرب اسلامی سمٹ‘‘ میں وزیرِاعظم پاکستان کا اسرائیل کے خلاف دوٹوک موقف اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستانی مندوب کی جانب سے اسرائیلی مندوب کی سرزنش نے بھی عربوں کو ’’مسکین بھائی‘‘ کی عزت افزائی پر مجبور کردیا۔ چناں چہ سعودی دورے کے دوران میں پاکستانی وفد کو دیا گیا بے مثال پروٹوکول اور دفاعی معاہدہ محض ایک واقعہ نہیں، بل کہ کئی واقعات کا تسلسل ہے۔
اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا طاقت کی زبان سمجھتی ہے…… اور طاقت صرف دولت کا نام نہیں۔ کیوں کہ دولت تو عربوں کے پاس بے حساب ہے، مگر اقبال کے الفاظ میں جس کو ’’غیرت‘‘ کہا جاتا ہے ، اس سے وہ تہی دامن نظر آتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا:
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
حالیہ دفاعی معاہدہ درویش پاکستان کے لیے تاجِ دارا کی حیثیت رکھتا ہے کہ پاکستانی عسکری صلاحیتوں کے ساتھ سعودی ریالوں کی حمایت بھی شامل ہوجائے گی…… لیکن احتیاط بھی لازم ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ معاہدہ دراصل ایک سیکورٹی پیراڈائم شفٹ ہے، جس میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک امریکہ سے منھ موڑ کر چین کی طرف بڑھ رہے ہیں اور پاکستان اس سفر کا ذریعہ ہے۔ اگر یہ درست ہے، تو کیا امریکہ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرے گا؟ یقینا نہیں……! اسی لیے پاکستان کو ہر قدم سوچ سمجھ کر اُٹھانا ہوگا۔
اُدھر کچھ حواس باختہ بھارتیوں نے سوشل میڈیا پر یہ تجویز دینا شروع کردی ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت سہ فریقی دفاعی معاہدہ کریں۔ اگرچہ پاکستان اور بھارت کی معیشت کا تقابل ہی بے معنی ہے، لیکن جب پاکستان نے ارادہ کیا، تو دنیا نے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھے اور تسلیم بھی کیا۔ مال دار عرب ممالک کے لیے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے۔ کاش…… وہ عقل سے کام لیں۔
یہی وقت ہے کہ مسلم دنیا، خصوصاً عرب ممالک، پاکستان کو اپنا پیش وا بنائیں اور ایک مضبوط عسکری اتحاد قائم کریں، تاکہ فلسطینیوں کو اسرائیلی مظالم سے بچایا جاسکے۔ کیوں کہ اسرائیلی وزیرِاعظم نے ایک تقریر میں کھلے عام ترکیہ کے صدر کو مخاطب کرکے کہا تھا:’’قدس ہمارا شہر تھا، ہمارا ہے اور ہمارا رہے گا۔ یہ مسلمانوں کا شہر نہیں!‘‘
اب اگر اس سب کے باوجود مسلمان ممالک اسرائیل کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کرتے، تو پھر قبلۂ اول کو بھول جائیں اور اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ حالیہ ’’پاک سعودی دفاعی معاہدہ‘‘ باقی عرب اور مسلم ممالک کے لیے مشعلِ راہ ہے اور خاص طور پر ایران کو بھی اس میں شامل ہونا چاہیے۔
پاکستان کے لیے بھی یہ موقع ہے کہ جس طرح اس نے بھارت کو عسکری میدان میں دھول چٹائی، اُسی طرح سیاسی اور معاشی میدانوں میں بھی غیر یقینی حالات کو شکست دے کر خود کو مزید مضبوط ثابت کرے اور بڑے پروٹوکول کا حق دار بنے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے