سوات کی فضا ایک بار پھر خوف اور بے یقینی کی لپیٹ میں ہے۔ عوام کی زبان پر ایک ہی سوال ہے:امن کہاں گیا…… اور امن دلانے کی ذمے داری کس کی ہے ؟
یہ سوال مٹہ میں ’’امن پاسون‘‘ کے جلسے میں بھی گونجتا رہا، جہاں ہزاروں لوگ جمع تھے…… لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس اجتماع میں عوام کے ساتھ ساتھ وہ منتخب نمایندے بھی شریک تھے، جو صوبائی اور قومی اسمبلی کی کرسیوں پر براجمان ہیں۔
یہ منظر بڑا عجیب اور افسوس ناک تھا۔ عوام نے ووٹ دے کر ان حضرات کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ ایوانوں میں بیٹھ کر فیصلے کریں، قانون سازی کریں اور اپنے علاقے کے مسائل کا حل نکالیں…… لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ نمایندے خود عوام کے ساتھ نعرے لگا رہے ہیں، بینر اٹھا رہے ہیں اور گویا یہ ثابت کرنے پر تلے ہیں کہ اُن کے پاس بھی مسائل کے حل کا کوئی اختیار نہیں۔ اگر عوامی نمایندے بھی عوام کی طرح احتجاج کریں، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیصلہ کون کرے گا، طاقت کس کے پاس ہے اور عوام اپنے مسائل کس کے سامنے رکھیں؟
سچ تو یہ ہے کہ ہمارے نمایندے اپنے فرائض سے غافل ہوچکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ عوام جذباتی ہیں، سڑکوں پر نکل آئیں گے، بینر اُٹھائیں گے، نعرے لگائیں گے اور جب کوئی واقعہ ٹھنڈا پڑ جائے گا، تو سب کچھ بھلا دیا جائے گا۔ یہی کھیل برسوں سے جاری ہے۔ نمایندے عوامی احتجاج میں شریک ہو کر صرف یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ بھی عوام کے ساتھ ہیں، مگر دراصل یہ محض ایک سیاسی ڈراما ہے۔
طنز یہ ہے کہ عوام نے انھیں منتخب ہی اس لیے کیا تھا کہ وہ عوام کے ساتھ سڑکوں پر کھڑے نہ ہوں، بل کہ ایوانوں کے اندر کھڑے ہوں۔ اگر ان کے دست خطوں، ان کی آواز اور ان کے ووٹ سے قانون سازی نہیں ہوگی، تو پھر عوام کس پر بھروسا کریں؟ کیا ایوان، صرف نمایندوں کے بیٹھنے اور تنخواہیں لینے کی جگہ ہے…… کیا یہ کرسی صرف پروٹوکول اور مراعات لینے کے لیے ہے؟
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب امن کے نام پر سوات کے عوام نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں، اپنے پیاروں کے جنازے اُٹھائے، اپنے گھر بار چھوڑے، تو انھی نمایندوں نے مذکورہ قربانیوں پر سیاست کی۔ آج اگر وہی نمایندے عوام کے ساتھ ہاتھوں میں بینر اٹھا کر کھڑے ہیں، تو یہ دراصل اپنی ناکامی کا اعتراف ہے…… مگر افسوس کہ یہ اعتراف بھی منافقت میں لپٹا ہوا ہے۔ کیوں کہ اصل سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب کچھ عوام ہی نے کرنا ہے، تو پھر ان نمایندوں کی ضرورت کیا ہے؟
یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ عوام اور نمایندے دونوں ایک ہی صف میں کھڑے ہیں…… لیکن فرق یہ ہونا چاہیے تھا کہ عوام سوال کرتے اور نمایندے جواب دیتے ۔ عوام مطالبہ کرتے اور نمایندے پورا کرتے۔ یہاں الٹی تصویر ہے:عوام بھی سوال کر رہے ہیں اور نمایندے بھی۔ تو پھر آخر یہ سوال کس سے ہے اور اس کا جواب کون دے گا؟
اگر منتخب نمایندے صرف احتجاج میں شریک ہو کر اپنی ذمے داری پوری سمجھتے ہیں، تو عوام کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ایسے نمایندے رکھنے کا فائدہ کیا ہے؟
سوات کے لوگ اب بہت کچھ سمجھ چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ امن کسی نعرے سے نہیں، بل کہ عملی اقدامات سے آتا ہے…… اور عملی اقدامات کے لیے نمایندوں کو سڑکوں پر نہیں، بل کہ ایوانوں میں لڑنا ہوگا۔ ورنہ تاریخ انھیں محض ’’تماشائی نمایندے‘‘ کے طور پر یاد کرے گی، جو عوام کے ساتھ کھڑے تو ضرور ہوئے، مگر اُن کے دکھوں کا علاج نہ کرسکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










