یکم ستمبر 2025ء کو ملالہ فنڈ کے شریک بانی ضیاء الدین یوسف زئی اپنی شریکِ حیات ’’تورپیکئی یوسف زئی‘‘، ملالہ فنڈ پاکستان کی چیف ایگزیکٹیو ’’نشاط ریاض‘‘ اور یسرا جبیں کے ہم راہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے ایک ہفتے کے ہنگامی دورے پر سوات پہنچے۔ اس دوران میں وہ سیدو شریف، مینگورہ، لنڈے کس، مکان باغ اور اپنے پرانے محلے کے حالات جاننے کے ساتھ ساتھ بونیر اور شانگلہ کے متاثرہ خاندانوں سے بھی ملے۔ اُنھوں نے سیلاب زدہ علاقوں کے دل دہلا دینے والے مناظر دیکھے؛ ہزاروں اُجڑے گھر اپنی بربادی کی داستاں سناتے پائے، جہاں درجنوں افراد زندگی کی بازی ہار چکے تھے اور ہزاروں زخمی حالت میں تھے۔ صوبے میں 400 سے زیادہ اسکول متاثر ہوئے اور خوش حال گھرانے لمحوں میں بے سہارا ہو گئے۔ اس بدحالی میں بھی لوگ ایک دوسرے کا سہارا بنے ہوئے تھے، بھوکوں کو کھانا اور بے گھر افراد کو پناہ فراہم کر رہے تھے۔ وفد نے متاثرین سے ملاقات کی، حوصلہ دیا اور اُن کے دکھ درد میں شریک ہوا۔
اس موقع پر اُنھوں نے گاؤں اسلام پور کا بھی دورہ کیا، جہاں ملالہ فنڈ نے لڑکیوں کے ہائر سیکنڈری اسکول کے قیام کے لیے ’’اسلام پور کاٹیج انڈسٹریز ایسوسی ایشن‘‘ کے ذریعے کروڑوں روپے کی زمین خریدی ہے۔ اُس پر اسکول کی تعمیر کے فنڈز کی فراہمی کا عمل آخری مرحلے میں ہے۔ آج جب دنیا کے بچے ’’مصنوعی ذہانت‘‘ (AI) جیسے جدید علوم میں مہارت حاصل کر رہے ہیں، یہاں کی پس ماندگی دیکھیے کہ پورے مرغزار درہ، جس کی آبادی 60 ہزار کے لگ بھگ ہے، میں لڑکیوں کے لیے محض ایک ہائی اسکول موجود ہے۔ 10 ہزار سے زیادہ بچیوں میں سے 90 فی صد کے لیے پرائمری کے بعد تعلیم کے دروازے بند ہو جاتے تھے۔ اب یہ دروازے ہائر سیکنڈری اسکول کے قیام سے کھل جائیں گے۔ ایک خواب ہے، جو حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔ اَب لڑکیاں گھروں میں برتن مانجھنے کے بہ جائے علم کے چراغ روشن کریں گی، وہ بھی ایک محفوظ اور خوش نما عمارت میں۔ یہ ادارہ اور اس کی عمارت موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں خیبر پختونخوا کا ایک ماڈل اسکول ہوگا، جو ماحول دوست بھی ہوگا۔
مسلسل اور شدید تر ہوتے سیلابوں کے باعث صوبے میں 400 سے زائد اسکول تباہ ہوچکے ہیں۔ ملالہ فنڈ اُن کی جگہ ’’کلائمٹ ریزیلینٹ اسکولز‘‘(Climate Resilient Schools) کے قیام کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایڈوکیسی کو تیز کرنے پر توجہ دے۔ کیوں کہ موجودہ حالات میں پرانی عمارتوں میں بچوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال کر تعلیم دینا ناممکن ہے۔ جب کہ پورے ملک میں پہلے ہی 60 لاکھ بچیاں اسکول سے باہر ہیں اور سیلاب جیسی آفات اس تعداد کو مزید بڑھا رہی ہیں۔
دورے کے آخری دن ملالہ فنڈ نے ایک عشائیے کا اہتمام کیا، جس میں امدادی کارکنوں اور رضاکاروں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ تقریب میں سیاسی جماعتوں، فلاحی تنظیموں کے کارکنوں، اساتذہ، وکلا، ڈاکٹر، صحافیوں اور ثقافتی برادری کے نمایندے بھی شریک تھے۔ شرکا نے سیلاب کی تباہ کاریوں پر روشنی ڈالی اور ہنگامی ضروریات بیان کیں، جن میں فوری ریلیف کے ساتھ صفائی ستھرائی، تعلیمی سامان کی فراہمی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ اسکول عمارتوں کی تعمیر شامل تھیں۔
حاضرین سے گفت گو کرتے ہوئے ضیاء الدین یوسف زئی نے کہا کہ سیلاب اب بار بار آ رہے ہیں اور ان کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ذمے دار اداروں کو چاہیے کہ ہنگامی حالات میں زیادہ موثر اور فعال کردار ادا کریں…… اور بین الاقوامی برادری متاثرین کی دل کھول کر مدد کرے۔ بحران کی شدت ناقابلِ تصور ہے۔ بہت سے لوگوں نے سب کچھ کھو دیا ہے…… اپنے پیارے، گھر، اسکول، مویشی اور کل کا سہارا دینے والا سامان۔ لیکن پاکستانی عوام کی ہم دردی اور یک جہتی نے یہ یقین دلایا کہ انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔
ضیاء الدین یوسف زئی نے عالمی اداروں سے اپیل کی کہ موسمی آفات سے متاثرہ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر سرمایہ کاری بڑھائی جائے۔ اُنھیں یہ بھی باور کرایا کہ شمالی علاقہ جات کے گلیشیر اور جنگلات پورے خطے کے ماحولیاتی توازن کے ضامن ہیں، مگر موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سب سے زیادہ انھی علاقوں پر پڑ رہے ہیں۔
اس موقع پر ہم ضیاء الدین یوسف زئی سے یہ بات نہ کَہ سکے کہ فوری ریلیف کے اقدامات کے ساتھ ساتھ کلائمیٹ چینج کے اثرات اور سیلاب کی شدت میں کمی کے لیے منظم ایڈوکیسی بھی ناگزیر ہے، تاکہ بچیوں کو ذہنی سکون کے ساتھ تعلیم کا ماحول مل سکے۔ عالمی اداروں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ تعلیمی ادارے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ماضی میں اسکولوں کی تعمیر کے لیے اکثر بے کار یا کم قیمت زمین مفت فراہم کی جاتی رہی، جن میں سے بعض عمارتیں تین اطراف سے ندیوں کے بیچ گھِری ہوئی تھیں۔ ہمیں دیہی علاقوں میں اسکولوں کے لیے زمین کی مفت فراہمی کی روایت ختم کر کے ایک منظم ایڈوکیسی اپنانی ہوگی، تاکہ محفوظ زمین پر ماحول دوست اسکول تعمیر کیے جا سکیں۔ اس دور میں سیلاب کو روکنا ممکن نہیں، مگر سیلاب سے تحفظ کی تدابیر اختیار کر کے زندگی کا سفر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
برمنگھم واپسی پر ملالہ فنڈ نے سیلاب زدہ پاکستان کے لیے لگ بھگ 7 کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم اس فنڈ میں ملاکنڈ ڈویژن، بالخصوص سوات، بونیر اور شانگلہ کے لیے کوئی منصوبہ شامل نہ تھا، حالاں کہ تعلیم کے شعبے میں گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ متاثر یہی علاقے ہیں، جہاں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ ناگزیر ہے۔
ضیاء الدین یوسف زئی ایک فعال سماجی کارکن کے طور پر اپنے لوگوں کی حالتِ زندگی بہتر بنانے کے لیے تعلیم کے شعبے سے ہٹ کر بھی اپنا کردار ادا کریں۔ امید ہے کہ بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے زندگی کا پہیا دوبارہ چلنے لگے گا۔
وقت ہی زخموں کا مرہم ہے۔ مایوسی اور پریشانی کے کہر میں ڈوبی وادی میں ضیاء الدین یوسف زئی اور تورپیکئی یوسف زئی کی آمد ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند تھی۔ لوگوں کو یہ تسلی ملی کہ مصیبت کی گھڑی میں اپنے ہی لوگ سہارا بنتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آئی کہ حکومتی اداروں اور نام نہاد عوامی نمایندوں سے کسی بھلائی کی توقع رکھنا محض دھوکا ہے۔ ان کی کرپشن اور نفسا نفسی کی داستانیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ بہ قول فیضؔ
ہم کہ ہیں کب سے درِ اُمّید کے دریوزہ گر
یہ گھڑی گزری تو پھر دستِ طلب پھیلائیں گے
کوچہ و بازار سے پھر چن کے ریزہ ریزہ خواب
ہم یوں ہی پہلے کی صورت جوڑنے لگ جائیں گے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










