غمگین دہلوی کے بہ قول
وہ لطف اُٹھائے گا سفر کا
آپ اپنے میں جو سفر کرے گا
علی ارسلان جٹ ہمارے اس سفر میں ہمارے اگلے ساتھی تھے، جو پیدایشی بائیکر ہیں۔ ساری عمر لاہور میں رہ کر، لاہور کے گلیاں کوچے گھوم پھر کر اور لاہور میں بزنس کے ششکے لے لے کر گزار دی۔ ابھی چند سالوں سے بورے والا شفٹنگ کی ہے اور اپنی آبائی زمین پر کاشت کاری شروع کر دی ہے۔ وہ زمین دارے میں آئے روز اتنے تجربے کرتا ہے، جتنے کہ خود زمینی سائنس دانوں نے نہیں کیے ہوں گے۔ وہ کاشت کاری کے لیے کم اور تجربات کے لیے زیادہ کاشت کاری کرتا ہے۔ زمین اس کی تجربہ گاہ ہے۔ اتنی کریمیں اشفاق اپنے چہرے پر استعمال نہیں کرتا ہوگا، جتنے تجربے علی اپنی زمینوں پر کرتا ہے۔ تجربہ در تجربہ والے اس معاملے میں وہ اشفاق کیا اس سارے علاقے کے زمین داروں کو مات دے چکا ہے۔ کہتا ہے کہ میں دراصل کاشت کاری کے اتنے تجربات کروں کہ ’’گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ والے اپنی بُک لے کر میرے پچھے پچھے پھریں اور میں اُنھیں پلا نہ پھڑاؤں۔
بائینکنگ میں لیرولیر اس کا ماٹو ہوتا ہے۔ جب تک تھک ہار کر اور چور و چور ہو کر اس کی بس نہ ہو جائے، وہ بس نہیں کرتا۔ جب تک وہ اپنے دوسرے ساتھیوں کو پہاڑوں کے اندر تک پھیلی راہوں پر فل بٹا فل کھجل نہ کر لے اسے مزا نہیں آتا۔ کھجل کرنے کا بھی اس کا اپنا ایک معیار ہے۔ جب تک بائیک چلا چلا کر ہڈیاں درد کرنا شروع نہ کر دیں۔ واٹر کراسنگز کراس کر کرکے پھپھری کانپنے نہ لگے۔ بندہ کم از کم آدھے سے زیادہ یعنی 70 فی صد بھیگ نہ جائے، اُس کے پہنے ہوئے کپڑے کم از کم 20 فی صد تک پھٹ نہ جائیں، اور اس کی……(قمیص) پھٹ کر گل چ نہ پے جائے۔ اسے تسلی نہیں ہوتی۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
یہاں پر اس شعر میں شاعر کی نرگس سے مراد ’’علی‘‘ ہے ۔ بڑی مشکل سے لیرولیر، چمن سے مراد پہاڑی گزرگاہیں اور دیدہ ور سے مراد گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کروانا ہے۔
کاشت کاری میں وہ اپنی زمین پر تجربات کے سلسلے میں بھی وہ اسی لیرولیر کے کلیے پر کاربند نظر آتا ہے۔ زمین کی ہر وقت اتھل پتھل تو کرتا ہی رہتا ہے، ساتھ میں اس میں نئی نئی فصلیں اُگانے کے تجربات کا سلسلہ بھی جاری رکھتا ہے۔ اس نے اپنی زمینوں کے گرد کچھ پھل دار درخت بھی کاشت کر رکھے ہیں، جن پر موسمی پھل فروٹ بھی آتے ہیں۔ وہ زیادہ تر دوپہر کے اوقات میں انھی کے نیچے اپنی چارپائی بچھا کر لیٹا رہتا ہے۔ ان درختوں میں سے ایک درخت سیب کا بھی ہے، جس کے سائے میں لیٹنا وہ زیادہ اچھا سمجھتا ہے ۔ مَیں نے اُس سے ایک دن اُس درخت کے نیچے زیادہ تر لیٹنے کا راز پوچھا، تو کہنے لگا کہ مَیں بھی نیوٹن کی طرح اپنے سیب کے درخت سے سیب کے پھل کو زمین کی بہ جائے خلا کی طرف جاتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں۔ جس کے نتیجے میں، مَیں بھی نئے ’’لا آف گریویٹیشنز‘‘ ایجاد کرنا چاہتا ہوں، جو سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ زمین دارے کے اُصولوں میں زمین داروں کے کام آ سکیں۔ نیوٹن صرف سائنس دان تھا۔ اُسے زمین دارے کی الف بے کا پتا نہ تھا۔ مَیں جب زمین دارے کے اپنے ’’گریویٹیشنل لا‘‘ ایجاد کرنے کے قابل ہوگیا، تو مَیں اُن کی مدد سے زمین داروں کی زبوں حالی، روز بہ روز زمین داروں کے ابتر سے ابتر ہوتے حالات، بہ وقتِ برداشت فصلوں کے ریٹ گر جانے سے لے کر کسانوں کی ساری مشکلات کا حل انھیں ’’لا آف گریوٹیشنز‘‘ کے ذریعے نکال کر دوں گا۔
چاہے میری کلی تے ککھ نہ روے۔ چمن میں یوں ہی تو دیدہ ور پیدا نہیں ہوتا۔ مَیں نے علی سے کہا کہ یہ سائنس دانوں کا کام ہے، تیرے بس کی بات نہیں۔ تو کہنے لگا کہ مَیں شادی کے بعد اپنے تین عدد بچے پیدا کر چکا ہوں۔ چمن میں دیدہ ور پیدا کرنا کون سا اتنا بڑا مسئلہ ہے۔ یہ بھی وقت آنے پر ایک نہ ایک دن ہو جائے گا، تسیں تسلی رکھو!
ابھی پچھلے سال وہ نواز صاحب، نوید بلال، زبیر صاحب اور حافظ ندیم صاحب کے ساتھ استور وادی کی یاترا پر گیا تھا۔ وہاں پر اُس نے اپنے ساتھیوں کو ایسی ایسی راہوں پر گھسیٹا کہ رہے رب دا ناں۔ وہ انھیں ان راہوں پر بھی لے گیا، جن پر شاید ہی کوئی گیا ہو۔ پتھروپتھری سڑکوں پر پھسلتی جاتی واٹر کراسنگز کراس کر کر کے جب ان بے چاروں کی بولتی بند ہو گئی۔ کپڑے پاٹ گئے۔ جتیاں ٹوٹ گئیں، تو وہ بڑے آرام سے ایک طرف کھڑے پہاڑ سے ٹیک لگ کر سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے بولا کہ ’’ہن کم لیرولیر ہویا اے…… ہن سواد آیا اے۔ ہن پیسے پورے ہوئے نے۔‘‘
اس نے اپنے گھر پر مختلف کمپنیوں کی تین عدد بڑی بائیکس رکھی ہوئی ہیں۔ کہتا ہے، ایک آدھی سے مجھے سواد ہی نہیں آتا۔ وہ صبح کے وقت یاماہا، دوپہر کو سوزوکی جب کہ شام کے وقت ہنڈا کی بائیک استعمال کرتا ہے۔ جب مَیں نے اس سے ان بائیکس کے اس طرح سے استعمال کی وجہ پوچھی، تو کہنے لگا کہ مجھے میرے ڈاکٹر نے انھیں ایسے ہی استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ کہنے لگا کہ یاماہا کو صبح کے وقت استعمال کریں، تو بواسیر کی بیماری نہیں لگتی۔ دوپہر کو سوزوکی کا استعمال سوزاک کے مرض کے لیے اکسیر ہوتا ہے، جب کہ شام کو ہنڈا کی بائیک استعمال کرنے سے مردانہ کم زوری نہیں ہوتی ۔
اس سفر کے ہمارے اگلے تین ساتھی ہمارے ساتھ پہلی بار سفر کر رہے تھے، جن کے نام نامی جناب کاشف وکیل صاحب، جناب فرخ رضا عرف بابا اور جناب محمد ریاض صاحب جن کے ساتھ ان کے 9 دس سالہ بیٹے اسامہ بھی تھے۔
کاشف صاحب نے سارا سفر اپنی بائیک پر بڑے دھڑلے سے کیا۔ جب کہ فرخ رضا کبھی کبھار ٹلی چھڈ جاتا تھا۔ ہمارے ساتھ پہلا ٹور تو تھا ہی، ساتھ میں اپنی زندگی میں اس کا یہ پہلا بائیک ٹور تھا اور وہ بھی خپلو کا۔ وہ بے چارہ کیا کرتا۔ اتنا لمبا، تکلیف دہ اور خطرناک سفر کر گزرنا بہ ہرحال اس کی ایک بڑی کام یابی ہے۔ سارا رستہ اشفاق صاحب اور حنیف زاہد صاحب اس کی ہمت بندھاتے رہے، بل کہ حنیف صاحب نے تو جگہ جگہ اس کی عملی مدد بھی کی۔ اُنھیں بائیک کی پچھلی سیٹ پر بٹھا کر خود بائیک چلائی۔ جس کی وجہ سے اُنھیں خاصا ریلیف ملا۔ جب کہ کاشف صاحب کی ہمت کی داد دینا بھی بنتی ہے۔ بشو ویلی کی چڑھائیاں بہت سیدھی اوپر کو چڑھنے کے ساتھ تنگ موڑوں والی ہیں، جو زیادہ تر گول گول پتھروں سے اَٹی اور کچھ مٹیالے پہاڑوں پر مشتمل دھول اُڑاتی کچی راہوں پر مشتمل ہے۔ ہم جیپ سوار تھے۔ ایک جگہ راستے میں کاشف ہمیں اپنی بائیک سے گرا ہوا نظر آیا۔ جیپ ڈرائیور بھاگ کرگیا، اُسے اٹھایا پھر اُس کی بائیک سیدھی کی…… مگر مجال ہے جو کاشف نے ذرا سی بھی کم زوری ظاہر کی ہو۔ اُسی وقت بائیک سٹارٹ کی اور پھر سے چل سو چل۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










