گریٹر اسرائیل نظریے کا تاریخی و سیاسی تجزیہ

Blogger Muhammad Ishaq Zahid

’’گریٹر اسرائیل‘‘ (Greater Israel) کے نظریے کو تاریخی و سیاسی زاویے سے جانچنے کے لیے ہمیں صہیونیت کی ابتدا، اسرائیل کے قیام، مشرقِ وسطیٰ کی جنگوں اور بین الاقوامی سیاست میں اسرائیل کے کردار پر تفصیل سے نظر ڈالنی ہوگی۔
گریٹر اسرائیل ایک ایسا نظریہ ہے، جو مشرقِ وسطیٰ میں دہائیوں سے عدم استحکام، جنگوں اور استعماری عزائم کی علامت بنا ہوا ہے۔ اگرچہ یہ ایک مذہبی بنیاد رکھنے والا نظریہ ہے، مگر اس کی عملی تشکیل میں تاریخ، سامراجی سیاست اور طاقت کی جنگ نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
19ویں صدی کے آخر میں یورپ میں یہودی مخالف جذبات (Anti-Semitism) کے نتیجے میں صہیونیت کی تحریک شروع ہوئی۔ ’’تھیوڈور ہرزل‘‘ (Theodor Herzl) اس تحریک کے بانی سمجھے جاتے ہیں، جنھوں نے 1896ء میں "The Jewish State” کے نام سے کتاب لکھی۔ اُن کا مقصد یہ تھا کہ یہودیوں کو ایک علاحدہ ریاست دی جائے اور ان کے مطابق اس کے لیے بہترین جگہ ’’فلسطین‘‘ تھی۔
صہیونی تحریک ابتدا میں ایک خالص سیاسی تحریک تھی، مگر اس میں جلد ہی مذہبی حوالہ جات اور ’’ارضِ موعود‘‘ کا نظریہ شامل کر لیا گیا۔ اس نظریے کے مطابق، خدا نے یہ زمین بنی اسرائیل کو عطا کی ہے ، اور یہ ارضی حدود نیل سے فرات تک پھیلی ہوئی ہیں۔
گریٹر اسرائیل کے سیاسی پہلو کی شروعات برطانوی سامراج کے دور میں ہوتی ہے۔ 1917ء میں برطانیہ کے وزیرِ خارجہ آرتھر بالفور نے ایک خط کے ذریعے یہودیوں کے لیے ’’فلسطین میں قومی وطن‘‘ کے قیام کا اعلان کیا، جو بالفور اعلامیہ کہلاتا ہے۔ یہ اعلامیہ نہ صرف فلسطینی عربوں کے حقوق کی نفی تھا، بل کہ برطانوی سامراج کی مشرقِ وسطیٰ میں نئی تقسیم کا آغاز بھی تھا۔ اُسی وقت سے گریٹر اسرائیل کے نظریے کو عالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہونا شروع ہوئی۔
1948ء میں اقوامِ متحدہ کی تقسیم کی تجویز کے تحت اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا گیا، جس کے بعد ہزاروں فلسطینی اپنے گھروں سے نکالے گئے۔ اس واقعے کو ’’نکبہ‘‘ (Nakba) کہا جاتا ہے ، جس کا مطلب ہے ’’تباہی۔‘‘
اُس وقت سے لے کر آج تک اسرائیل مسلسل اپنی سرحدیں بڑھاتا چلا آ رہا ہے۔ 1967ء کی ’’شش روزہ جنگ‘‘ میں اسرائیل نے مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، غزہ کی پٹی، گولان کی پہاڑیاں (شام)، جزیرہ نما سینا (مصر) پر قبضہ کر لیا۔ یہ تمام علاقے گریٹر اسرائیل کے نقشے میں شامل کیے جاتے ہیں، جو بعض انتہا پسند صہیونی حلقوں میں آج بھی زیرِ بحث ہے۔
اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے قبضہپر مبنی رہی ہے ۔ مطلب یہ کہ وہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاروں کو بسا کر، وہاں کی زمین پر قبضہ کر کے اور سیکورٹی کے نام پر دیواریں کھڑی کرکے ایسا نقشہ بناتا ہے، جو آگے جا کر ’’حقیقت‘‘ تسلیم کی جائے ۔ یہ پالیسی گریٹر اسرائیل کے خواب کی عملی شکل ہے، چاہے اسے سرکاری سطح پر تسلیم نہ بھی کیا جائے۔
اسرائیل کے اندر کئی ایسی جماعتیں اور مذہبی گروہ موجود ہیں، جو کھلے عام گریٹر اسرائیل کے حامی ہیں، جیسے :
٭ لیکود پارٹی بن یامین نیتن یاہو کی جماعت شاس مذہبی جماعت۔
٭ یہودت ہتوراہ اور دیگر مذہبی صہیونی جماعتیں۔
یہ جماعتیں فلسطینی ریاست کے قیام کی سخت مخالفت کرتی ہیں اور تمام ’’تاریخی یہودیہ و سامریہ‘‘ کو اسرائیل کا لازمی حصہ سمجھتی ہیں۔
عرب دنیا نے گریٹر اسرائیل کے تصور کو ہمیشہ ایک استعماری منصوبہ سمجھا ہے۔ 1967ء کی جنگ کے بعد عرب ریاستوں میں بیداری آئی، مگر بدقسمتی سے داخلی تقسیم، آمریت اور مغربی دباو کی وجہ سے وہ اسرائیل کے توسیع پسند عزائم کو روکنے میں ناکام رہیں۔
ایران، ترکی، حزب اللہ، حماس اور کچھ دیگر گروہ اب بھی گریٹر اسرائیل کو خطے کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف مزاحمت کی بات کرتے ہیں۔ امریکہ ہمیشہ سے اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی رہا ہے ، اور اکثر اسرائیل کے توسیع پسند اقدامات پر چشم پوشی کرتا آیا ہے۔ یورپی یونین عمومی طور پر دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے، مگر عملی اقدامات میں کم زور نظر آتا ہے۔ روس، چین اور اقوامِِ متحدہ جیسے ادارے اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں، مگر اُن کی مذمتیں عملی روک تھام میں تبدیل نہیں ہوسکیں۔
’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا نظریہ صرف ایک مذہبی عقیدہ نہیں،بل کہ ایک استعماری اور سیاسی منصوبہ بھی ہے، جسے تاریخ کے مختلف ادوار میں عالمی طاقتوں نے سہارا دیا۔ اگر اس تصور کو عملی شکل دی گئی، تو یہ نہ صرف فلسطین، بل کہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑے انسانی المیے اور ممکنہ عالمی جنگ کی بنیاد بن سکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے