اساتذہ کی تربیت سے لائسنس تک: پالیسیوں کا تضاد

Blogger Noor Muhammad Kanju

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی اور بقا کی بنیاد ہوتی ہے، لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں تعلیمی پالیسیوں میں سنجیدگی کا فقدان اور تجربوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تعلیم کو مسلسل زوال کی طرف دھکیل رہا ہے۔
خیبر پختونخوا کی موجودہ حکومت جو گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے اقتدار میں ہے، تعلیمی ایمرجنسی کے دعوے کے ساتھ میدان میں تو اُتری، مگر اس ایمرجنسی کے نام پر جو فیصلے کیے گئے، وہ نہ صرف غیر سنجیدہ تھے، بل کہ بعض صورتوں میں مضحکہ خیز بھی تھے۔ مذکورہ فیصلوں نے نظامِ تعلیم کو اتنا نقصان پہنچایا کہ شاید برسوں تک اس کی تلافی ممکن نہ ہو۔
ماضی میں جب اُستاد کی بھرتی کی جاتی تھی، تو اس کے لیے کچھ واضح اصول و ضوابط ہوتے تھے۔ میرٹ کو اولیت حاصل تھی اور ٹیچرز ٹریننگ کو بنیادی حیثیت دی جاتی تھی۔ تعلیم یافتہ نوجوان اگر درس و تدریس کے مقدس پیشے میں آنا چاہتے، تو پہلے باقاعدہ تدریسی کالجوں میں یک سالہ تربیت حاصل کرتے، امتحان دیتے اور پھر ایک مستند سرٹیفکیٹ کے ساتھ میدانِ عمل میں قدم رکھتے۔ یہی وجہ تھی کہ سرکاری اسکولوں سے فارغ التحصیل طلبہ نے نہ صرف ملک، بل کہ بیرونِ ملک بھی اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ آج جو ڈاکٹر، انجینئر، بیوروکریٹ اور ماہرین مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ اُسی نظام کی پیداوار ہیں، جس میں اُستاد کو تربیت کے بعد ہی تدریس کا موقع ملتا تھا۔
لیکن جب موجودہ حکومت نے اس نظام میں مداخلت کی، تو سب کچھ بدل گیا۔ ایک نیا تجربہ کیا گیا جس کے تحت اساتذہ کی بھرتی میں ٹریننگ کی شرط کو ختم کر دیا گیا۔ اب ہر خاص و عام کو، چاہے اُس کا تدریس سے کوئی لگاو ہو یا نہ ہو، اُستاد بننے کی اجازت دے دی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایسے نوجوان جو کسی اور شعبے میں جانا چاہتے تھے، لیکن مواقع نہ ملنے کی صورت میں حادثاتی طور پر اُستاد بن گئے۔ یہ پیشہ جس کی بنیاد ہی شوق، لگن اور تربیت پر رکھی گئی تھی، اَب بے راہ رو افراد کے ہاتھوں میں چلا گیا۔
حکومت کو جب اپنی اس پالیسی کی خامی کا احساس ہوا، تو پھر ایک اور تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔کہا گیا کہ جو اساتذہ بغیر تربیت کے بھرتی ہوچکے ہیں، اُنھیں دورانِ ملازمت تربیت دی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے لاکھوں نہیں، کروڑوں روپے خرچ کیے گئے۔ تربیتی ورکشاپوں اور سرٹیفکیٹ کورسوں کا اہتمام ہوا…… لیکن اس ساری مشق کے نتیجے میں نہ تعلیم کو کوئی فائدہ پہنچا، نہ طلبہ کو…… بل کہ وقت اور وسائل دونوں ضائع ہوئے۔ جب تربیت مکمل ہوئی، تو اُن میں سے بڑی تعداد نے تدریس کو خیرباد کَہ کر کسی اور شعبے کا رُخ کر لیا۔ وہ تو محض عارضی مجبوری کی وجہ سے اس پیشے میں آئے تھے، تربیت ملنے کے بعد اُنھیں اپنے اصل میدان میں واپس جانے کا بہانہ مل گیا۔
اَب حکومت نے ایک اور نیا فیصلہ کیا ہے، اور اس بار یہ فیصلہ ایک باقاعدہ لائسنس کے اجرا سے متعلق ہے۔ یعنی اُستاد کو اب تبھی پڑھانے کی اجازت ہوگی، جب وہ ’’ٹیچنگ لائسنس‘‘ حاصل کرے گا۔ یہ فیصلہ نہ صرف غیر منطقی ہے، بل کہ ان تمام پالیسیوں کی نفی ہے، جو خود حکومت نے ماضی میں ترتیب دی تھیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تدریسی پروفیشنل ڈگری کو ختم کر دیا گیا تھا، تو اب لائسنس کی شرط کس منطق کے تحت لگائی جا رہی ہے؟
اگر لائسنس ہی بنیادی معیار ہے، تو پھر ماضی کے تربیتی کالج کیوں بند کیے گئے ؟
کیا یہ اعتراف نہیں کہ حکومت کی پرانی پالیسی ناکام ہو چکی ہے؟
زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ حکومت اب ان اساتذہ پر بھی لائسنس کی شرط لاگو کرنا چاہتی ہے، جو سال ہا سال سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مستقل ملازمین، جنھوں نے دہائیاں تعلیم کے شعبے میں لگائی ہیں، اُن پر اچانک لائسنس کی شرط لاگو کرنا نہ صرف غیر قانونی ہے، بل کہ غیر اخلاقی بھی۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی اُستاد لائسنس حاصل نہ کرسکے، تو اُسے نوکری سے فارغ کیا جاسکتا ہے۔ اس سے نہ صرف اساتذہ میں بے چینی بڑھے گی، بل کہ تعلیم کے شعبے میں مزید بداعتمادی جنم لے گی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت تعلیم جیسے حساس شعبے کو مزید تجربات کی بھینٹ نہ چڑھائے۔ پروفیشنل تربیتی کالجوں کو بہ حال کیا جائے، نوجوانوں کو تدریس کی باقاعدہ تربیت دی جائے اور بھرتی کا معیار وہی رکھا جائے، جو ماضی میں تھا۔
تعلیم کسی حکومت کی لیبارٹری نہیں، جس پر ہر پانچ سال بعد نیا تجربہ کیا جائے۔ اُستاد کا احترام تب ہی بہ حال ہو سکتا ہے، جب اُسے عزت، تربیت، تحفظ اور پیشہ ورانہ ماحول فراہم کیا جائے، نہ کہ نت نئے فیصلوں سے اس کے وقار کو مجروح کیا جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے