قطر، جو گذشتہ 23 مہینوں سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ میں ایک کلیدی ثالث رہا ہے، 9 ستمبر 2025ء بہ روز منگل اسرائیلی طیاروں کے ایک حملے کا نشانہ بنا۔ دوحہ کے ایک رہایشی کمپاؤنڈ میں بمباری ہوئی، جس کا ہدف وہاں مقیم حماس کی جَلاوطن قیادت تھی، جو امریکی سربراہی میں پیش کردہ ’’غزہ جنگ بندی کی تجویز‘‘ پر غور کے لیے وہاں موجود تھی۔
اس حملے میں حماس قیادت کے محافظ، معاونین اور قطری افسر شہید ہوئے۔ ایک طرح سے مذکورہ حملے کے بعد اب خطے میں ایک خطرناک روایت قائم ہوچکی ہے۔ اسرائیل نے علاقائی خودمختاری کی حد عبور کر دی ہے اور اس کے علاقائی سلامتی پر سنجیدہ مضمرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے ۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ ایک طرف مذاکرات کرنے والوں سے بات چیت کرنا اور دوسری طرف اُنھیں قتل کر دینا کسی معاہدے تک پہنچنے کے امکانات کو کم کر دیتا ہے۔
نیز اس حملے سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ اسرائیل بہ ظاہر کسی بھی جنگ بندی کے معاہدے میں دل چسپی نہیں رکھتا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حملے نے نہ صرف غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کو تباہ کیا ہے، بل کہ اس سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے ممکنہ نئے اتحادوں کے امکانات بھی متاثر ہوئے ہیں۔ امریکہ، جو قطر کا اتحادی اور دوست ہے اور جس کے سب سے بڑے ہوائی فوجی اڈوں میں سے ایک قطر میں واقع ہے، اگر اسرائیل حملہ روکنے میں ناکام رہا، تو ایسے نئے اتحاد کیسے کام یاب ہوسکیں گے؟
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس حملے کو درست قرار دیا اور بتایا کہ اس کمپلیکس میں حماس کی مذاکراتی ٹیم موجود تھی۔ اُنھوں نے یہ جواز دیتے ہوئے کہا کہ حماس قیادت پر یہ حملہ اُس کے ردِ عمل میں کیا گیا جو یروشلم میں دو روز قبل چھے افراد کے قتل اور 7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر کیے گئے حملے کے جواب میں ضروری تھا۔
نیتن یاہو نے اس جواز کی تائید میں کہا کہ امریکہ نے بھی القاعدہ کے تعاقب میں اسامہ بن لادن کو پاکستان میں ہلاک کیا تھا۔ اپنے ویڈیو پیغام میں اُنھوں نے 11 ستمبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 11 ستمبر کے بعد امریکہ نے اس گھناؤنے جرم کے ذمے داروں کو پکڑنے کا وعدہ کیا تھا، چاہے وہ کہیں بھی ہوں، اور اُس کے دو دن بعد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرار داد پاس ہوئی جس میں کہا گیا کہ حکومتیں دہشت گردوں کو پناہ نہیں دے سکتیں۔ مذکورہ ’’اصول‘‘ پر عمل کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ ہم نے 7 اکتوبر کے ماسٹر مائنڈ دہشت گردوں کا پیچھا کیا اور اُن پر حملہ کیا۔ کیوں کہ قطر نے اُن دہشت گردوں کو پناہ دی، مالی مدد فراہم کی اور اُنھیں شان دار محلوں میں ٹھہرایا، جو کہ قطر کو نہیں کرنا چاہیے تھا۔
اُنھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ اسرائیل نے وہی کیا جو امریکہ نے کیا تھا: امریکہ نے افغانستان میں القاعدہ کا پیچھا کیا اور بعد ازاں اسامہ بن لادن کو مار ڈالا۔
شدید عالمی ردِعمل کے حوالے سے نیتن یاہو نے استفسار کیا کہ دنیا کے بعض ممالک اسرائیل کی مذمت کر رہے ہیں، تو اُنھیں شرم آنی چاہیے کہ امریکہ کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد اُنھوں نے کیا کیا؟ کیا اُنھوں نے پاکستان اور افغانستان کے خلاف ناپسندیدگی کا اظہار کیا؟ نہیں……! بل کہ اُنھوں نے تالیاں بجائیں۔ اُن ممالک کو اپنی اُنھی اصولوں پر قائم رہنے اور اُنھی اصولوں کو اپنانے پر اسرائیل کی تعریف کرنی چاہیے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نے قطر اور دیگر ممالک کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یا تو وہ حماس کے دہشت گردوں کو اپنے ملک سے نکال دیں، یا اُنھیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں…… اور اگر ایسا نہیں کریں گے، تو اسرائیل خود کارروائی کرے گا۔
قارئین! یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیل نے اپنی فوجی مہم کا دائرۂ کار غزہ، لبنان، ایران، شام اور یمن سے وسیع کرتے ہوئے قطر تک پھیلا دیا ہے۔ یہ ایک خطرناک روایت ہے، جو عرب دنیا کے اُن ممالک میں بھی اضطراب پیدا کرسکتی ہے، جو امریکہ کے سب سے قریبی شراکت دار سمجھے جاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال امریکہ کو بھی تنازعات میں اُلجھا سکتی ہے۔
قطری وزیرِ اعظم الشیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے اسرائیلی حملے کو ’’ریاستی دہشت گردی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل خطے کو ایسی جگہ گھسیٹ رہا ہے، جو سنگین نتائج کا موجب بن سکتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ اسرائیلی حملے کے جواب کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور واضح کیا کہ قطر اس واقعے کو ہرگز نظر انداز نہیں کرے گا۔
اس تمام تر صورتِ حال میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اُنھیں اس خلیجی ریاست پر اسرائیلی حملے کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی، اگرچہ وہ واضح طور پر امریکہ اور قطر کے درمیان قریبی تعلقات کا اعتراف کرتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ غزہ جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں، مگر آج کے واقعے پر اُنھیں ’’بہت خوشی‘‘ نہیں ہے۔
ایک طرف ٹرمپ نے کہا کہ یہ فیصلہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کا تھا، دوسری طرف بعض ذرائع، مثلاً: اسرائیلی چینل 12 کا دعوا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو اس حملے کی پیشگی منظوری دی تھی۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولائن کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے ٹرمپ انتظامیہ کو حملے کے بارے میں اطلاع دی تھی، مگر یہ واضح نہیں تھا کہ اطلاع حملے سے پہلے دی گئی، یا حملے کے وقت دی گئی؟ اُنھوں نے کہا کہ حملے سے امریکہ اور اسرائیل کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ حماس کا خاتمہ ایک اہم مقصد ہے۔
قارئین! اوپر تحریر شدہ متضاد بیانات کا بہ نظرِ عمیق جائزہ لیا جائے، تو اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیل کو حملے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مکمل یا جزوی حمایت حاصل تھی۔ کیوں کہ بین الاقوامی تعلقات میں ’’مفادات‘‘ دوستی اور دشمنی کے محور پر گھومتے رہتے ہیں۔ دنیا چاہے اسرائیلی حملے کی مذمت کرے یا نہ کرے، اس سے کسی قسم کا فوری فرق محسوس ہونا مشکل ہے۔ کیوں کہ ظاہری طور پر مذمتیں ایسی کارروائیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہیں اور عالمی طاقتیں اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات اُٹھانے میں تذبذب کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔
ایران، غزہ، لبنان، شام، یمن اور قطر جیسے بعض ممالک، جو امریکہ کے اتحادی تصور کیے جاتے تھے، اگر اسرائیلی کارروائیوں کا شکار بن رہے ہیں، تو یہ صورتِ حال مسلمانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج، جس کے سربراہ کا تذکرہ ہوا اور جس کی قیادت ایک پاکستانی جنرل کے ہاتھ میں تھی، کہاں ہے؟ معلوم نہیں کہ مشترکہ فوج کے کمانڈر، جنرل راحیل شریف، اس صورتِ حال میں کہاں ہیں؟
ایک سوال یہ بھی ہے کہ خلیجی اُمرا اتنی دولت کس لیے جمع کرتے ہیں؟ برسبیلِ تذکرہ، جب ہلاکو خان نے بغداد فتح کیا، تو خلیفہ کے محل سے حاصل ہونے والے ہیرے اور جواہرات جمع کیے گئے، اور خلیفہ کے سامنے ایک پلیٹ پر وہی ہیرے رکھ کر اُنھیں کھانے کا حکم دیا گیا، تو خلیفہ نے کہا کہ یہ کھانے کی چیز نہیں۔ ہلاکو خان نے جواب دیا کہ اگر یہ کھانا نہیں، تو آپ نے یہ دولت کیوں جمع کی؟ اگر آپ اس سرمایے سے جنگی ساز و سامان تیار کرتے، اپنے سپاہیوں کو مناسب اُجرت دیتے اور اپنی رعایا کو سہولتیں فراہم کرتے، تو آج آپ کی ریاست اتنی آسانی سے فتح نہ کی جاتی۔
اگر پاکستان یا خلیجی ممالک میں سے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آج غزہ، ایران، لبنان، شام، یمن اور قطر اسرائیلی دہشت گردی کا شکار ہیں اور اُنھیں کوئی کچھ بھی نہیں کَہ سکتا، تو یہ ایک خام خیالی ہے۔ کل یہ ممکن ہے کہ یہی ممالک بھی اسرائیلی کارروائیوں کا شکار بن جائیں اور پھر ایک ایک کرکے متاثرہ فہرست بڑھے گی، جب کہ پاکستان کے خلاف تو اسرائیل نے پہلے ہی سے کچھ اقدامات کیے ہیں، جن کا احوال ابھی زیرِ بحث ہے۔
وقت اب بھی موجود ہے کہ مسلمان ممالک متحد ہو کر اسرائیلی دہشت گردی اور سامراجی طاقتوں کا مقابلہ کریں، ورنہ سب کو غلام بنا دیا جائے گا۔
بہ قول احمد فرازؔ
میں آج زد پہ اگر ہوں، تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










