عالمِ عرب کی تلاشِ راجیور اور پاکستان

Blogger Syed Asrar Ali

فلم ’’ویلکم‘‘ 2007ء میں تقریباً 32 کروڑ کے بجٹ سے بنی اور دنیا بھر میں 117 کروڑ سے زائد کا بزنس کیا۔ یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی اور اُس سال کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی ہندوستانی فلموں میں دوسرے نمبر پر رہی۔ 18 سال گزرنے کے باوجود بھی اس فلم کے کئی جان دار مکالمے آج بھی گاہے بہ گاہے ’’میمز‘‘ اور ’’ریلز‘‘ کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ کبھی ’’بلو‘‘ یعنی مشتاق خان کا یہ فقرہ کہ ’’میری ایک ٹانگ نقلی ہے، مَیں ہاکی کا بہت بڑا کھلاڑی تھا‘‘، تو کبھی ’’اُدے شنکر شیٹی‘‘ (نانا پاٹیکر) کا وہ لازوال ڈائیلاگ’’دیکھیں، بھگوان کا دیا ہوا سب کچھ ہے…… دولت ہے، شہرت ہے، عزت ہے……!‘‘ نانا پاٹیکر کی مخصوص ادائی، ڈرامائی توقف اور پھر ’’عزت ہے‘‘ پر ٹھہری ہوئی آواز، اس مکالمے کو محض فلمی نہیں، بل کہ فن کا شاہ کار بنا دیتی ہے۔
فلم میں نانا پاٹیکر کی سب سے بڑی اُلجھن اُس کی بہن ’’سنجنا‘‘ کی شادی تھی، جس کے لیے وہ ایک شریف اور نیک خاندان ڈھونڈ رہا تھا۔ پھر قسمت نے جیسے ہی راجیور (اکشے کمار) کو اُس کے سامنے لا کھڑا کیا، تو اُدے شیٹی نے کمال ادائی سے اس فلم کا ہٹ ڈائیلاگ بولا:’’دیکھیں بھگوان کا دیا ہوا سب کچھ ہے ، دولت ہے ، شہرت ہے ، عزت ہے…… بس ایک نیک اور شریف لڑکا چاہیے تھا، وہ تلاش بھی آج ختم ہوئی۔‘‘
دوحہ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد احباب نے قطری دولت کے چرچے جو چھیڑے، تو مجھے ویلکم فلم کا اُدے شیٹی یاد آیا۔مجھے لگا کہ جیسے عرب دنیا سے آواز آرہی ہو کہ’’اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے، دولت ہے، شہرت ہے، عزت ہے…… بس ایک نیک اور شریف لڑکا چاہیے، جو ہماری حفاظت کرے!‘‘
طنز و مزاح برطرف، مگر سچ تو یہ ہے کہ عرب ممالک کی حالت آج کچھ ایسی ہے کہ خزانے ڈالر سے بھرے پڑے ہیں، تیل کے چشمے اُبل رہے ہیں، محلات کے دروازے سونے سے منڈھے ہیں، اسلحے کے ڈھیر ہیں۔ جدید ٹینک، طیارے اور میزائل خریدنے میں دنیا میں ٹاپ پر ہیں، لیکن پھر بھی اُن کی ’’کانپیں ٹانگ رہی ہیں۔‘‘
ستم بالائے ستم یہ کہ عرب دنیا نے اپنی حفاظت کے لیے جس ’’نیک اور شریف لڑکے‘‘ (امریکہ) کا انتخاب کیا ہے، وہ خود قابلِ اعتماد نہیں۔ عراق سے لے کر شام تک، لیبیا سے لے کر یمن تک، تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ امریکہ نے ہر موڑ پر عرب دنیا کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ کبھی جمہوریت کے نام پر لشکر کشی کی، کبھی انسانی حقوق کے لبادے میں خانہ جنگیاں بھڑکائیں اور کبھی امن معاہدوں کے پردے میں خون کی ندیاں بہا دیں۔ عربوں کو وہ ہتھیار دیے گئے، جو دیکھنے میں تو فولادی ہیں، مگراصل میں کھلونے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ۔ ان کھلونوں کی چابیاں اور کوڈز ہمیشہ سے واشنگٹن کے پاس ہیں، تاکہ یہ نہ تو امریکہ کے خلاف استعمال ہو سکیں اور نہ ان کے بغل بچوں کے خلاف۔ نتیجہ یہ کہ اسلحے کے ڈھیر محلات کے گوداموں میں سجتے گئے، مگر اصل میں وہ کباڑ خانہ ہی ہیں۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ عرب حکم رانوں نے اس کباڑ کو اپنی سلامتی کی ضمانت سمجھ لیا ہے۔ امریکی تاریخ کی سرسری ورق گردانی کیجیے، تو ہر موڑ پر ایک ہی داستان دہراتی ملے گی:دھوکا، مکاری اور وعدہ خلافی۔ وہ اپنے مفاد کے سوا کچھ نہیں دیکھتے اور ان کا اصل کاروبار یہی ہے کہ دنیا میں آگ لگی رہے، تاکہ ان کے اسلحہ ساز وں کے گلشن کا کاروبار چمکتا رہے۔ ایسے دفاعی پارٹنر پر تکیہ کرنا بصیرت نہیں، بل کہ سراسر حماقت ہے۔
’’حزب اللہ‘‘ پر حالیہ پیجر دھماکے ہوں، یا دوحہ قطر پر حملے کی تازہ داستان…… یہ سب اس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ ہیں کہ عرب دنیا کے قلعے اندر سے کھوکھلے ہوچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب وہ وقت نہیں آیا کہ عالمِ عرب، عالمِ اسلام کے اس ’’نیک اور شریف لڑکے ‘‘ یعنی پاکستان کو بھی اپنی خدمت کا موقع دے؟ یہ ملک مانا کہ غریب ہے، قرضوں میں جکڑا ہوا ہے، داخلی محاذ پر کرپشن، بیڈ گورننس اور سیلابوں کے زخموں سے نڈھال ہے، لیکن اس میں ایک خوبی ہے، جو سب پر بھاری ہے……اس کے بازو مضبوط ہیں۔ اس کے پاس دنیا کی بہترین فوج ہے، ایسی ائیر فورس ہے، جس کے شاہین لمحوں میں دشمن کے پر کاٹ سکتے ہیں، کروڑوں کی تعداد میں نوجوان افرادی قوت ہے، جو عربوں کے لیے خاص عقیدت بھی رکھتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کی چین سے وہ دوستی ہے، جو ہمالیہ سے اونچی، بحرالکاہل سے گہری اور چینی سے بھی زیادہ میٹھی ہے۔ ایسے میں اگر عرب دنیا امریکہ کے بہ جائے چین سے ساز و سامان لے اور اس کو چلانے کے لیے پاکستان کے بازو استعمال کرے، تو دنیا کا کوئی بھی دشمن اس خطے کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جسارت نہیں کرسکے گا۔ اس مثالی مثلث میں ترکی کو بھی بھرپور جگہ دی جا سکتی ہے۔ اور ویسے بھی جتنے ’’تحفے‘‘ عربوں نے ٹرمپ کو تھما دیے تھے، اتنے میں پاکستان کا پورا قرضہ بھی اُتر سکتا تھا اور اگلے پانچ سال عیش و عشرت میں گزر سکتے تھے۔
ذرا چشمِ تصور میں وہ منظر لائیے کہ عرب کی سرحدوں کی حفاظت پاکستانی فوج کر رہی ہو، چین سے جدید ٹیکنالوجی میسر ہو اور ترکی کا تجربہ ساتھ کھڑا ہو۔ عرب نوجوان ہر خوف و خطر سے بے نیاز گلی گلی نعرے لگا رہے ہوں’’ حبیبی، کم ٹو دبئی‘‘،’’حبیبی، کم ٹو دوحہ‘‘، ’’حبیبی ، کم ٹو جدہ!‘‘پھر وہ دن بھی آئے گا کہ جب عرب سرزمین سے بھی وہی صدائیں بلند ہوں گی، جو آج پاکستانی جلسوں میں گونجتی ہیں۔’’جنرل عاصم منیر، میری جند میری جان!‘‘ پھرکسی دور صحرا میں ایک یخ بستہ محل میں کسی حسینہ کے نازک ہاتھ سے جام لیتا ہوا شیخ بھی جھوم کر کہے گا:’’سَلامُکُم مَبنیٌّ عَلی التَّضحِیات، وَدَمُ الباکِستانیِّ ھُوَ الأساسُ في الثَّبات۔‘‘ یعنی تمھارا امن قربانیوں پر قائم ہے، اور پاکستانی خون ہی استقامت کی بنیاد ہے ۔
دکھ تو یہ ہے کہ اُدے شیٹی کو تو آخرِکار اپنی بہن کے لیے نیک اور شریف لڑکا مل ہی گیا تھا، لیکن عرب دنیا کی تلاش ابھی تک سراب ہے۔ خزانے بھرے ہیں، محلات جگمگا رہے ہیں، ڈالر بہہ رہے ہیں، مگر اصل اطمینان غائب ہے۔ وہ ’’شریف اور نیک لڑکا‘‘ جسے یہ برسوں سے واشنگٹن کے خیمے میں ڈھونڈ رہے ہیں، دراصل اُن کے دروازے پر ہی کھڑا ہے پاکستان کی صورت میں۔ یہ ملک غریب سہی، قرضوں کا مارا سہی، کرپشن اور سیلابوں سے گھرا سہی، لیکن اس کے بازو مضبوط ہیں، اس کے سپاہی جان دینے کو تیار ہیں، اور اس کے عوام عربوں کے لیے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں۔ اپنے وزیرِاعظم شہباز شریف نے بھی کئی بار ان شیوخ کو سمجھایا کہ ’’مَیں مانگنے نہیں آیا!‘‘ لیکن عجب ماجرا ہے کہ پتا نہیں ان شیوخ کو ہمارے ہاتھوں میں ہمیشہ کچکول ہی کیوں اچھا لگتا ہے۔ حالاں کہ یہ چاہیں، تو اسی کچکول کو اپنے ہاتھوں سے توڑ کر ہمیں بندوق تھما دیں، اور پھر یہ سکون سے سو جائیں،ہم جانیں اور اُن کے دشمن۔
اب فیصلہ عرب دنیا کو کرنا ہے کہ وہ اپنی تقدیر ایک ایسے تاجر کے حوالے رکھے، جس کا کاروبار جنگ پر چلتا ہے، یا ایک ایسے بھائی کے ہاتھ میں دے، جس کے خون کی سرخی اُن کے امن کا چراغ جلائے گی۔ اگر یہ انتخاب بروقت کر لیا گیا، تو تاریخ اُن پر ہنسے گی نہیں، بل کہ فخر کرے گی…… اور اگر نہ کیا گیا، تو پھر یہ محلات ڈالر کے انباروں کے باوجود اسی طرح لرزتے رہیں گے، جیسے آج لرز رہے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے