چارباغ کا مستقبل تاب ناک یا بے نور؟

Blogger Hilal Danish

سوات کی انتظامی تقسیم کے حوالے سے یہ بحث شدت اختیار کر چکی ہے کہ وادی کو دو حصوں’’اپر سوات‘‘ اور ’’لوئر سوات‘‘ میں بانٹا جائے ۔ بہ ظاہر یہ فیصلہ محض ایک انتظامی حکمتِ عملی دکھائی دیتا ہے، لیکن درحقیقت اس کے نہایت گہرے اثرات عوامی زندگی، تعلیم، سیاست، سماجی توازن یعنی ہر شعبے پر پڑیں گے۔ ایسے فیصلے محض کاغذی خاکے پر نہیں، بل کہ عوامی سہولت، جغرافیائی حقائق اور معاشرتی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر کیے جانے چاہییں۔
اکثر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ نئے اضلاع وجود میں آنے سے ترقی کی رفتار تیز ہو جاتی ہے، لیکن تجربہ اس تاثر کی نفی کرتا ہے۔ شانگلہ اور بونیر، جو سوات ہی سے الگ کیے گئے تھے، آج بھی ترقی کے اعتبار سے کوئی نمایاں فرق پیدا نہیں کرسکے۔ یہی نہیں، ملک کی سطح پر بھی یہی صورتِ حال ہے۔ پنجاب کی آبادی تقریباً 12 کروڑ 77 لاکھ ہے اور اضلاع صرف 40 ہیں، جب کہ خیبرپختونخوا کی آبادی چار کروڑ کے لگ بھگ ہے اور اضلاع کی تعداد 38 ہے۔ اگر اضلاع میں اضافہ ہی ترقی کی ضمانت ہوتا، تو پنجاب کے اضلاع کی گنتی 100 سے تجاوز کر چکی ہوتی۔
اگر بالفرض سوات کو تقسیم کرنا ناگزیر ہے، تو سب سے اہم سوال یہ ہے کہ تحصیلِ چارباغ کو کس حصے میں رکھا جائے گا؟ منطقی اور عوامی مفاد پر مبنی جواب یہ ہے کہ اسے لازماً ’’لوئر سوات‘‘ میں شامل کیا جانا چاہیے۔ سیدو شریف، جو لوئر سوات کا صدر مقام ہے، چارباغ کے قریب ترین اور سہولت رساں مرکز ہے۔ یہاں تک رسائی کے لیے عوام کو طویل اور دشوار سفر طے کرنا نہیں پڑتا۔ اس کے برعکس، اگر چارباغ کو ’’اَپر سوات‘‘ میں شامل کیا گیا، تو مدین، خوازہ خیلہ یا مٹہ جیسے دور افتادہ مقامات کو مرکز بنانے کی بات کی جا رہی ہے، جو یقینی طور پر مقامی آبادی کے لیے مشکلات میں اضافہ کرے گا۔
تعلیم کے میدان میں یہ فیصلہ کہیں زیادہ دور رس اثرات رکھتا ہے۔ دہائیوں سے جہانزیب کالج نہ صرف سوات، بل کہ پورے خطے کا علمی مرکز رہا ہے۔ بی ایس پروگرامز میں 43 فی صد نشستیں مقامی طلبہ کے لیے مخصوص ہیں، جب کہ 41 فی صد اوپن میرٹ پر صوبے کے دیگر اضلاع کے طلبہ کے لیے رکھی گئی ہیں۔ اگر چارباغ کو ’’اَپر سوات‘‘ کا حصہ قرار دیا گیا، تو وہاں کے طلبہ ’’نان لوکل‘‘ تصور ہوں گے اور اُنھیں سخت مسابقت کے ذریعے داخلے کے مواقع ڈھونڈنے ہوں گے۔
اس کے مقابلے میں اَپر سوات کا ’’پیرنٹ کالج‘‘ مٹہ ہو گا، جس کے پاس صرف 8 شعبہ جات ہیں…… اور اُن میں سے بھی دو بند ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف جہانزیب کالج میں 18فعال ڈیپارٹمنٹس موجود ہیں۔ یہ فرق خود بولتا ہے کہ چارباغ کے نوجوانوں کے لیے لوئر سوات زیادہ سازگار ہے۔
اسی طرح ڈگری کالج مینگورہ، جو ہر سال درجنوں طلبہ کو میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں تک رسائی دلاتا ہے، چارباغ کے طلبہ کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اَپر سوات میں شمولیت کے بعد یہ ادارہ بھی اُن کے لیے ’’نان لوکل‘‘ قرار پائے گا…… اور یوں اعلا تعلیم کے دروازے ان پر محدود ہو جائیں گے۔
طالبات کی صورتِ حال اور بھی نازک ہے۔ سیدو شریف کا پوسٹ گریجویٹ گرلز ڈگری کالج اس وقت سوات کی سب سے بڑی علمی پناہ گاہ ہے، جہاں مختلف شعبوں میں بی ایس پروگرامز جاری ہیں۔ اَپر سوات کے گرلز کالجوں میں یہ سہولت اور استعداد موجود نہیں۔ اگر چارباغ کی بچیوں کو اَپر سوات کے کھاتے میں ڈال دیا گیا، تو اُن کے تعلیمی مستقبل پر ایک بڑی ضرب لگے گی۔
یہ مسئلہ صرف تعلیم اور سفری سہولت تک محدود نہیں، بل کہ سیاسی توازن پر بھی اثر انداز ہوگا۔ اگر چارباغ کو اَپر سوات میں شامل کیا گیا، تو یہ خوازہ خیلہ کے ساتھ ایک ہی صوبائی حلقے میں آ جائے گا۔ چوں کہ خوازہ خیلہ کی آبادی دوگنی ہے، اس لیے سیاسی نمایندگی میں چارباغ کم زور اور غیر موثر (یعنی عملاً سیاسی طور پر یتیم) ہوجائے گا۔ اس کے برعکس لوئر سوات میں شمولیت چارباغ کو مضبوط سیاسی وزن اور بہتر نمایندگی دے گی۔
لہٰذا یہ فیصلہ محض ایک انتظامی رد و بدل نہیں، بل کہ عوامی سہولت، نوجوانوں کے مستقبل، طالبات کے تعلیمی مواقع اور علاقے کی سیاسی اہمیت کا سوال ہے۔ انصاف کا تقاضا اور عوامی مفاد کا تقاضہ یہی ہے کہ تحصیلِ چارباغ کو لوئر سوات میں شامل رکھا جائے۔ یہی راستہ عوام کو آسانیاں، تعلیم کو وسعت اور علاقے کو ترقی کے یک ساں امکانات فراہم کرسکتا ہے۔
سوات کی ممکنہ تقسیم میں تحصیلِ چارباغ کی حیثیت پر صرف تعلیمی و سیاسی اثرات ہی زیرِ بحث نہیں، بل کہ صحت کی سہولیات بھی ایک نہایت اہم پہلو ہیں۔ اگر چارباغ کو اَپر سوات میں شامل کر دیا گیا، تو اس کے عوام کو صحت کے میدان میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
فی الوقت ریسکیو 1122 اور دیگر ایمرجنسی سروسز مریضوں کو سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہسپتال سیدوشریف منتقل کرتی ہیں، جو ملاکنڈ ڈویژن کا سب سے جدید اور سہولیات سے آراستہ طبی مرکز ہے…… مگر اَپر سوات میں شمولیت کی صورت میں ضلعی حدود مریضوں کے راستے میں دیوار بن جائیں گی۔ ریسکیو عملہ مریض کو بہ راہِ راست سیدو شریف منتقل نہیں کرسکے گا، بل کہ پہلے خوازہ خیلہ یا مٹہ کے اسپتالوں میں لے جانا ہوگا، اور وہاں سے دوبارہ ریفرل کی صورت میں سیدو شریف پہنچایا جائے گا۔ یہ طویل مرحلہ قیمتی وقت ضائع کرے گا، جو ایمرجنسی حالات میں مریض کی جان کے ضیاع کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
خوازہ خیلہ اور مٹہ کے اسپتال اگرچہ بنیادی سطح پر طبی خدمات فراہم کرتے ہیں اور چند اسپیشلٹیز بھی موجود ہیں، مگر جدید طبی سہولیات کا وہاں نام و نشان تک نہیں۔ "Cath Lab”, "Dermatology”, "Nephrology” اور "Pulmonology” جیسے کلیدی شعبے سرے سے غیر موجود ہیں، ان جیسی "Super Specialities”کے قیام میں کم از کم 10 سال یا اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے، اور تب تک عوام کو شدید محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ مستقبل میں جتنی بھی جدید سہولیات، جیسے ’’برن یونٹ‘‘، جدید آئی سی یوز یا خصوصی مراکز قائم ہوں گے، وہ لازمی طور پر اسی ضلع میں تعمیر ہوں گے، جہاں میڈیکل کالج اور ٹیچنگ اسپتال موجود ہے۔ چوں کہ یہ دونوں ادارے سیدو شریف میں واقع ہیں، لہٰذا تمام بڑی سہولیات کا ارتکاز لازماً لوئر سوات ہی میں ہوگا۔ یوں چارباغ کے عوام اَپر سوات میں شامل ہونے کی صورت میں ہمیشہ دوسرے درجے کی سہولیات پر اکتفا کرنے پر مجبور رہیں گے۔
اس منظرنامے میں یہ واضح ہے کہ اگرچہ کچھ افراد کو اس تقسیم سے ذاتی فائدہ مل سکتا ہے، لیکن اجتماعی اور حقیقی مفاد صرف اُسی وقت محفوظ ہوگا جب چارباغ کو لوئر سوات کا حصہ رکھا جائے۔ صحت، تعلیم اور روزمرہ سہولتوں کے تناظر میں یہی فیصلہ عوامی فلاح کے عین مطابق ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے