انگلینڈ، انرجی ڈرنکس پر پابندی، دیر آید درست آید

Journalist Comrade Amjad Ali Sahaab

(یہ تحریر دراصل انگریزی اخبار "The Guardian” کے ایک تحقیقی مضمون "Why have energy drinks been banned for under-16s in England? The real question is why it wasnt done sooner” کا ترجمہ ہے، جسے ’’پروفیسر دیوی سری دھر‘‘ نے لکھا ہے، مترجم)
تقریباً ڈیڑھ برس قبل برطانوی نوجوان ایک نئی جنونیت میں گرفتار تھے۔ یہ تھا ’’پرائم‘‘ (Prime) نامی توانائی بخش مشروب کا جنون، جسے ’’یوٹیوب‘‘ کے مشہور انفلوئنسرز ’’لوگن پال‘‘ اور ’’کے ایس آئی‘‘ نے متعارف کرایا تھا۔ رنگ بہ رنگے ڈبوں میں بند یہ مشروب اس تیزی سے خریدا گیا کہ والدین ورطۂ حیرت میں پڑگئے۔ نہ صرف اس کی غیر معمولی قیمت اور کم یابی کے سبب بننے والی ناجائز منڈیاں پریشان کن تھیں، بل کہ وہ بے تابی بھی جس کے ساتھ بچے اور نوجوان اس مشروب کو نوشِ جاں فرمانا چاہتے تھے، والدین کو فکر میں ڈبونے کے لیے کافی تھی۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ ’’پرائم‘‘ اکیلا نہیں؛ دکانوں کی قطاریں توانائی بخش مشروبات سے بھری پڑی ہیں اور ان کا ہدف زیادہ تر نوجوان ہی ہیں۔
صحت کے بڑھتے خدشات کے پیشِ نظر برطانوی حکومت نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ انگلستان میں 16 سال سے کم عمر بچوں کو توانائی بخش مشروبات (Energy Drinks) بیچنا ممنوع ہوگا۔ وزیرِ صحت ’’ویس اسٹریٹنگ‘‘ (Wes Streeting) کے مطابق یہ مشروبات فربہ اندامی، توجہ کی کمی اور نیند کی خرابی جیسے مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ بہ قول ان کے:’’توانائی بخش مشروبات بہ ظاہر بے ضرر دکھائی دیتے ہیں، لیکن یہ ہمارے بچوں کی نیند، ارتکاز اور تن درستی پر منفی اثر ڈال رہے ہیں، جب کہ زیادہ شکر والے نسخے دانتوں کو خراب اور جسم کو بھاری کر رہے ہیں۔‘‘
سافٹ ڈرنکس بھی اسی زمرے میں آتی ہیں، لیکن اس بحث کے بیچوں بیچ ایک عام مگر خطرناک جزو ’’کیفین‘‘ (Caffeine) موجود ہے۔
کیفین دراصل ایک نفسیاتی دوا ہے، جو اعصابی نظام کو متحرک کرتی ہے۔ بالغ افراد اسے معتدل مقدار میں کافی یا چائے کی شکل میں استعمال کر کے بڑے نقصان سے بچ جاتے ہیں، مگر بچے اور نو عمر جسم اسے مختلف انداز سے جذب کرتے ہیں۔ چوں کہ اُن کی نشو و نما جاری ہوتی ہے، اس لیے دماغ زیادہ حساس رہتا ہے اور بیرونی عوامل سے آسانی سے ڈھل جاتا ہے۔ سائنسی شواہد بتاتے ہیں کہ نوجوان دماغ پر کیفین کے اثرات خاصے گہرے اور نقصان دہ ہیں۔
امریکہ کی ایک وسیع تحقیق میں 9 سے 10 برس کی عمر کے تقریباً 12 ہزار بچوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔ مذکورہ تحقیق نے کئی برس تک اُن بچوں کو فالو کیا، تاکہ دیکھا جا سکے کہ کیفین اور دیگر مادے ذہنی کارکردگی پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں؟ نتائج یہ نکلے کہ کیفین نے الفاظ سمجھنے، پڑھنے، یادداشت، توجہ اور سوچنے سمجھنے کی ساتوں صلاحیتوں کو نقصان پہنچایا۔ اس کے باوجود کہ تحقیق میں عمر، جنس، نیند اور معاشی حیثیت جیسے عوامل کو بھی شامل رکھا گیا تھا۔ محققین نے صاف کہا:’’والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے کیفین والے مشروبات پر قابو رکھیں، تاکہ ذہنی نشو و نما متاثر نہ ہو۔‘‘
’’امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس‘‘ (The American Academy of Pediatrics)بھی 18 برس سے کم عمر افراد کے لیے کیفین والے مشروبات کو سختی سے منع کرتی ہے۔
آسٹریلیا، پرتگال اور برطانیہ کے جنوب مغربی حصے سے بھی بالکل اسی نوعیت کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیفین کی کتنی مقدار نقصان دہ ہے؟ ’’یورپین فوڈ سیفٹی اتھارٹی‘‘ (The European Food Safety Authority) کے مطابق اگر کیفین کی مقدار تین ملی گرام فی کلو وزن سے زیادہ ہو، تو یہ بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے نقصان دِہ ہے۔ یعنی 10 سال کا 30 کلو وزنی بچہ صرف 90 ملی گرام کیفین سے ذہنی اور جسمانی مسائل کا شکار ہوسکتا ہے…… مگر حقیقت یہ ہے کہ بیش تر توانائی بخش مشروبات اس سے کہیں زیادہ کیفین رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’پرائم‘‘ کے ایک کین میں دو سو ملی گرام کیفین ہے، جب کہ ایک کپ کافی میں 95، چائے میں 50، کوکا کولا میں 34 اور ڈائٹ کولا میں 46 ملی گرام کیفین ہوتی ہے۔
ان مشروبات میں کیفین کی یہ کثرت ہی وہ بنیادی وجہ ہے، جس کے باعث برطانیہ پابندی کی طرف گام زن ہے۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ والدین کی ذمے داری ہے، حکومت کی نہیں…… لیکن سوشل میڈیا کی جارحانہ تشہیر کے سامنے یہ دلیل دم توڑ دیتی ہے۔ ’’ٹک ٹاک‘‘، ’’یوٹیوب‘‘ اور ’’انسٹاگرام‘‘ پر ایسے مشروبات کو جس شدت سے پیش کیا جاتا ہے، وہ والدین کی نصیحت کو بے اثر کردیتا ہے۔ پھر ان کی پیکنگ کھیلوں کے صحت بخش مشروبات سے اتنی مشابہت رکھتی ہے کہ بچے انھیں اسکول جاتے یا واپسی پر بڑی آسانی سے خرید لیتے ہیں۔ والدین سے یہ توقع رکھنا کہ وہ تنہا اس جنون کو روکیں گے، غیر منصفانہ بھی ہے اور غیر حقیقی بھی۔
یقینا اگر پابندی لگ بھی گئی، تو والدین انھیں خرید کر بچوں کو دے سکتے ہیں۔ نفاذ کی کم زوریاں اپنی جگہ، مگر اس اقدام کا پیغام یہ ہوگا کہ یہ مشروبات ہرگز بے ضرر نہیں اور یہ کہ ہر مقبول شے لازمی طور پر محفوظ نہیں ہوتی۔
اصل ضرورت یہ ہے کہ حکومتیں اس موقع پر تجارتی مفادات اور کم زور آبادیوں کے درمیان ایک چھلنی کا کردار ادا کریں۔ والدین اور عوام ریاست سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ سائنسی شواہد کو چھانٹ کر نقصان دِہ اشیا پر قدغن لگائے۔ جب یہ عمل درست طریقے سے ہوتا ہے، تو صحتِ عامہ محفوظ رہتی ہے اور صارفین پر سے ایک بوجھ کم ہو جاتا ہے۔ توانائی بخش مشروبات پر 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے پابندی اسی بات کی علامت ہے کہ اگر حکومتیں سائنسی بنیادوں پر، طبی ماہرین کی رائے سے اور عوامی مفاد میں فیصلے کریں، تو صحت کے تحفظ کے لیے مثبت قانون سازی ممکن ہے۔
نوٹ:۔ ’’پروفیسر دیوی سری دھر‘‘ (Prof Devi Sridhar) دراصل ایک امریکی محقق اور ’’ایڈنبرا یونیورسٹی‘‘ (University of Edinburgh) میں عالمی صحتِ عامہ کی سربراہ ہیں۔ وہ گلوبل ہیلتھ گورننس پروگرام کی بانی اور ڈائریکٹر ہیں۔ ان کی تحقیق صحتِ عامہ کی پالیسیوں اور امدادی نظام کو موثر بنانے پر مرکوز ہے، مترجم۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے