بدلتی ہوئی عالمی صورتِ حال

Journalist Comrade Amjad Ali Sahaab


ملیحہ لودھی (امریکہ، برطانیہ اور اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی سابق سفیر) کا روزنامہ ڈان میں 8 ستمبر 2025ء کو شائع شدہ کالم "Shifting Global Dynamics” کا ترجمہ۔
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا حالیہ اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا، جب دنیا بڑے جغرافیائی و سیاسی ہلچل کے دور سے گزر رہی ہے۔ اس ہلچل کی سب سے بڑی وجہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ پالیسی ہے، جس نے عالمی تجارتی نظام کو ایک طرح سے محصولاتی جنگ کے ذریعے اُلٹ پلٹ کر کے رکھ دیا ہے اور واشنگٹن کی ترجیحات کو نئے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ امریکی صدر کی جارحانہ تجارتی روش نے دوستوں اور دشمنوں، دونوں کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ نہ صرف واشنگٹن سے رعایتوں کے حصول کے لیے مذاکرات کریں، بل کہ ایک دوسرے سے بھی قریبی تعلقات استوار کرنے میں دیر نہ کریں۔
ٹرمپ کے جبر نے چین اور روس کو مزید قریب کر دیا ہے۔ بھارت کے خلاف اُن کی تجارتی یلغار اور روسی تیل کی درآمد پر عائد پابندیاں دہائیوں پر محیط دہلی واشنگٹن تعلقات کے لیے دھچکا ثابت ہوئیں۔ یہی سبب بنا کہ بھارت نے چین کا در کھٹکھٹایا اور سرد تعلقات میں کچھ گرمی دیکھنے کو ملی۔ یہی پس منظر تھا جس میں وزیرِاعظم نریندر مودی 7 برس بعد چین کے سفر پر مجبور ہوئے اور ایس سی اُو اجلاس میں شریک ہوئے۔
یہ اجلاس بلاشبہ مذکورہ تنظیم کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ سنہ 2001ء میں قیام کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ 10 رُکن ممالک کے سربراہان، 16 مبصر اور شراکتی ممالک اور 10 عالمی اداروں کے نمایندے ایک ہی چھت تلے گھل مل گئے۔ آبادی اور معیشت کے پیمانے پر یہ تنظیم نہ صرف دنیا کے 40 فی صد انسانوں، بل کہ عالمی معیشت کے ایک چوتھائی حصے کی نمایندگی بھی کرتی ہے۔
یہ موقع صدر شی جن پنگ کے لیے ایک متبادل عالمی تصور پیش کرنے کا تھا……ایک ایسا تصور، جو تصادم نہیں، بل کہ تعاون پر مبنی ہو، بالکل ٹرمپ کی پالیسیوں کے برعکس۔
اس غیر یقینی دنیا میں جہاں ایک طرف ٹرمپ کی حرکات نے نئے طوفان کھڑے کیے، تو دوسری طرف چین نے استحکام کی پیش کش کی…… اور ذمے دار و معتبر عالمی قیادت کے طور پر خود کو پیش کیا۔ اس نے نہ صرف جنوبی دنیا کی آواز بلند کرنے کا بیڑا اُٹھایا، بل کہ ایک زیادہ منصفانہ اور مساوی عالمی نظام کی وکالت بھی کی۔
اپنے خطاب میں صدر شی نے اقوامِ متحدہ کے مرکزی کردار پر زور دیا، یک طرفہ رویوں کی مذمت کی اور اُس ’’سرد جنگی ذہنیت‘‘ کو للکارا ،جو ابھی تک دنیا کو ڈرا رہی ہے۔
مزید برآں، صدر شی نے ’’عالمی حکم رانی کا نیا منصوبہ‘‘ پیش کیا، جو بین الاقوامی قانون، مساوات اور ترقی پذیر ممالک کی شمولیت پر مبنی ہے۔ رکن ممالک نے ایک نئے ’’ایس سی اُو ترقیاتی بینک‘‘ کے قیام پر اتفاق کیا، جس کے لیے چین نے 2 ارب یوان امداد اور 10 ارب یوان قرض کا اعلان کیا۔ یوں پہلی بار اس تنظیم کو باضابطہ ترقیاتی مالیاتی پشت پناہی بھی حاصل ہوئی۔
تیانجن اعلامیہ میں ایک زیادہ منصفانہ اور کثیر قطبی عالمی نظام کی تشکیل کی بات کی گئی۔ یک طرفہ جبری اقدامات مسترد کیے گئے اور تجارتی تعاون بڑھانے کا عزم کیا گیا۔ سب سے نمایاں بات یہ رہی کہ اعلامیہ نے اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران پر جون 2025ء میں کیے گئے فضائی حملوں کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ ساتھ ہی غزہ کی تباہ کن انسانی صورتِ حال پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے فوری جنگ بندی اور فلسطینی مسئلے کے منصفانہ حل کا مطالبہ کیا گیا…… تاہم یوکرین جنگ کا ذکر اعلامیے میں غائب رہا۔
اعلامیے کا ایک بڑا حصہ ’’دہشت گردی کے خلاف مشترکہ عزم‘‘ کو سونپا گیا۔ نہایت نپے تلے الفاظ میں پہلگام واقعہ اور جعفر ایکسپریس پر دہشت گرد حملے دونوں کی مذمت کی گئی، بغیر یہ بتائے کہ یہ کہاں ہوئے؟ یہ الفاظ بلاشبہ پاکستان اور بھارت دونوں کی رضامندی سے تحریر ہوئے۔
اجلاس کے حاشیے پر ہونے والی دو طرفہ ملاقاتوں نے بھی دنیا کی توجہ اپنی طرف مرکوز کی۔ صدر شی اور وزیرِاعظم مودی کی بات چیت نے دنیا بھر میں دل چسپی پیدا کی۔ دونوں کے مُثبت بیانات نے تعلقات کی برف پگھلنے کا تاثر دیا، اگرچہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ تبدیلی محض وقتی حکمتِ عملی ہے، یا پھر کسی نئے باب کا آغاز……!
دوسری اہم ملاقات وزیرِاعظم شہباز شریف اور صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان ہوئی۔ اس سے پاکستان اور روس کے تعلقات میں وسعت کے امکانات اُجاگر ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی چین کے ساتھ ملاقاتوں میں اگلے پانچ برسوں کا عملی منصوبہ طے پایا، سی پیک کے نئے مرحلے پر اتفاق ہوا اور درجن بھر یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔ یوں واضح ہو گیا کہ اگرچہ ’’پاکستان امریکہ روابط‘‘ میں تازہ گرمی آئی ہے، مگر چین پاکستان کے لیے بہ دستور اولین حکمتِ عملی کی حیثیت رکھتا ہے۔
یوں تیانجن اجلاس نے اُس عالمگیر منظرنامے کی عکاسی کی، جس میں دنیا تیزی سے ’’کثیر قطبیت‘‘ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ کی پالیسیوں نے اس سفر کو مزید تیز کر دیا ہے۔ ان سب میں سب سے زیادہ دور رس اثرات انھی کوششوں کے ہوسکتے ہیں، جو غیر مغربی طاقتیں نئے عالمی نظام کی تشکیل کے لیے کر رہی ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے