ضلع سوات کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا معاملہ موضوعِ بحث بن گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ زندگی کے تقریباً تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اسے یا تو ناگزیر سمجھ لیا ہے، یا مان لیا ہے…… اور اب اس بحث میں مصروف ہیں کہ کون سا ایریا اپر سوات اور کون سا لوئر سوات کے ساتھ شامل ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے، یہ اصل مسئلے یعنی ’’وادیِ سوات کی ترقی اور پیش رفت‘‘ سے ہٹ کر ایک لاحاصل بحث ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا صرف تقسیم ہی امن، استحکام اور ترقی کی ضمانت دے سکتی ہے۔ میری نظر میں ایسا بالکل نہیں۔ ہمارے قلیل وسائل اور محدود آمدنی کے پیشِ نظر، نئے انتظامی یونٹ یعنی اَپر سوات کی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے کوئی اضافی فنڈز دست یاب نہیں ہوں گے۔ دریں اثنا، یہ اشرافیہ کی طاقت کی جدوجہد کے لیے کم زور رہ جائے گا۔
ہمارے سامنے ڈھیر ساری مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر سوات سے الگ ہونے والے ضلع بونیر اور شانگلہ اب بھی سوات کی صحت اور تعلیم کی سہولیات پر منحصر ہیں۔ اگرچہ اُن کی علاحدگی کے معاملات کو شناخت کی بنیاد پر جائز قرار دیا جاتا ہے، لیکن ان علاقوں کی ترقی کا وعدہ کئی دہائیوں سے پورا نہیں ہوا۔ سچ یہ ہے کہ معاشی ترقی کا دارومدار ’’لائنز‘‘ کو دوبارہ بنانے پر نہیں، بل کہ امن، کمیونٹی کی قیادت میں وسائل کی تقسیم اور سب سے بڑھ کر اچھی حکم رانی پر ہے۔
حقیقی ترقی کے لیے طاقت اور وسائل کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارا آئین پہلے ہی سے تین سطحی نظام (وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں) فراہم کرتا ہے۔ اگر اصل اتھارٹی اور وسائل مقامی سطح پر سونپے جائیں، تو میونسپل سروسز موثر طریقے سے فراہم کی جاسکتی ہیں، یوں گڈ گورننس کی مثال قائم کی جاسکتی ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان قانون سازی کے لیے منتخب ہوتے ہیں، میونسپل اُمور کو چلانے کے لیے نہیں۔
اس تناظر میں، حکومت کو چاہیے کہ وہ وادیِ سوات کی تقسیم کے ذریعے اپنے اشرافیہ کے طبقے کے تسلط کو بڑھانے کے بہ جائے مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے پر توجہ دے۔ ہمیں اجتماعی آواز سوات کی مزید تقسیم کے خلاف اُٹھانی چاہیے اور اس کے بہ جائے نچلی سطح تک طاقت اور وسائل کی حقیقی منتقلی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ تبھی ترقی اور ’’پائیدار ترقی‘‘ حاصل ہو گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










