سائنس کہتی ہے کہ ’’پانی کا ہونا زندگی ہے اور نہ ہونا موت……! ‘‘
لیکن اگر یہی پانی سیلاب کی صورت اختیار کرلے، تو دنیا کے لیے تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ سیلاب انسانی بستیوں کو روندتے ہوئے صفحۂ ہستی سے مٹا دیتے ہیں، انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں، مال مویشی، فصلات اور باغات کو تباہ کر دیتے ہیں۔
ملکی تاریخ میں حالیہ سیلاب ایک انسانی المیے کی شکل اختیار کر چکا ہے، جس کے باعث پاکستان اپنی تاریخ کے ایک بڑے سانحے سے گزر رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس سیلاب نے کم از کم 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے، جس نے معیشت کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ سیکڑوں انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ 10 لاکھ سے زیادہ گھر، 8 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی اراضی، 10 لاکھ مویشی، 5 ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں، 256 پل، 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد آبادی اور بے شمار فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔
سیلاب سے سڑکوں، پلوں اور نظامِ موصلات و ترسیلات کو جو نقصان پہنچا ہے، شاید اس انفراسٹرکچر کو دوبارہ تعمیر کرنے میں دہائیاں لگ جائیں۔ یہ محض ایک وقتی آفت نہیں، بل کہ ماحولیاتی توازن کو بھی بگاڑ دیتی ہے۔ مٹی کے کٹاؤ کی وجہ سے زرعی زمین بنجر ہو جاتی ہے، آلودہ پانی پینے سے ٹائیفائیڈ اور ملیریا جیسے امراض پھیل جاتے ہیں۔
سیلاب کے بعد حکم ران ہر بار متاثرین کی بہ حالی اور انفراسٹرکچر پر اربوں کھربوں روپے خرچ کرنے کے دعوے کرتے ہیں، لیکن سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے مستقل اقدامات سے گریز کرتے ہیں۔ یہ رویہ قابلِ مذمت ہی نہیں، بل کہ ایک ناقابلِ معافی جرم کے مترادف ہے۔
دوسری طرف، متاثرین کے نام پر آنے والے اربوں روپے اکثر اصل مستحقین تک پہنچنے کے بہ جائے کسی اور کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔ بیرونی دنیا ہمیں متاثرین کی بہ حالی کے لیے ملین ڈالر کا امداد دیتی ہے، مگر وہ کہاں جاتی ہے، کسی کو معلوم نہیں۔ حکم رانوں کو ہر بار دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی، کیوں کہ یہ بھیک مانگنا اُن کی عادت بن چکی ہے۔
حکم رانوں نے کئی بار سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجوہات جاننے اور سدباب کے لیے کمیشن بنائے، مگر المیہ یہ ہے کہ نہ صرف ان رپورٹوں پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، بل کہ انھیں غور سے پڑھنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ یہ ہماری اجتماعی نااہلی ہے کہ ہم اپنی قومی سود و زیاں کا بھی ادراک نہیں رکھتے۔ اگر ہم 35 سال پہلے بھی بند توڑ کر سیلابی پانی کا رُخ موڑتے رہے اور آج بھی یہی کام کر رہے ہیں، تو یہ حکم رانوں کی نااہلی نہیں تو اور کیا ہے……؟
سیلاب کی تباہ کاریوں کے جہاں حکم ران ذمے دار ہیں، وہاں عوام بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ بلا شبہ سیلاب اور دیگر قدرتی آفات دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی آتے ہیں اور وہاں بھی انسانی جان و مال کا نقصان ہوتا ہے، مگر پاکستان میں اس کے اسباب مختلف ہیں، جو زیادہ تر ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنی نااہلی، کوتاہی، لغزش، بددیانتی اور بدانتظامی کو قدرتی آفات کے کھاتے میں ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں، حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
نظامِ کائنات خدائے بزرگ و برتر کی عطا کردہ ہے، اس میں کوئی نقص یا شگاف نہیں۔ جو بھی خرابی ہمیں نظر آتی ہے، وہ دراصل انسان کی اپنی پیدا کردہ ہے ۔ ہم دریاؤں، ندی نالوں اور نکاسئی آب کے راستوں پر گھر، ہوٹل اور بنگلے تعمیر کرکے آبی گزرگاہوں کو تنگ یا بند کر دیتے ہیں، جس سے پانی کا قدرتی بہاو رُک جاتا ہے ۔ یوں سیلاب کی صورت میں یہی پانی انسانی آبادیوں کی طرف رُخ موڑ لیتا ہے اور تباہی مچا دیتا ہے۔
اس گھناونے کھیل میں ریاستی ادارے بھی شریک ہیں، مگر آج تک کسی ذمے دار کا تعین نہ ہو سکا اور شاید آگے بھی کبھی ہونے کا امکان نہیں۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی جاری ہے۔ ٹمبر مافیا سرکاری اہل کاروں کے ساتھ مل کر ماحولیاتی تباہی میں کردار ادا کر رہا ہے۔ سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ یہ ہماری بھی ذمے داری ہے کہ جنگلات کا تحفظ کریں اور نئے درخت لگائیں۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد اب ایک بار پھر ڈیم بنانے یا نہ بنانے کی بحث شروع ہو چکی ہے…… خاص طور پر کالا باغ ڈیم کے حوالے سے۔ یہ منصوبہ دریائے سندھ پر بنایا جانا تھا، مگر تاحال تعطل کا شکار ہے۔ آج پھر کالا باغ ڈیم نہ بننے کا رونا رویا جا رہا ہے ۔ ایک پشتون شاعر نے اس ڈیم کو خیبر پختونخوا کے نقصان اور پنجاب کے فائدے کے تناظر میں یوں بیان کیا ہے کہ
د خپلو شاڑو میرو باغ جوڑ وی
دَ گل وطن پہ سر دی داغ جوڑوی
دَ خوشحال زویہ شابہ ویخ شہ ورتہ
دا مغلان جوڑ کالا باغ جو ڑ وی
اب سوال یہ ہے کہ پنجاب کو دریائے راوی، چناب، ستلج اور بیاس کے سیلابوں سے کتنا نقصان ہوا اور دریائے سندھ سے کتنا؟ اگر پنجاب کو سب سے زیادہ نقصان مذکورہ چار دریاؤں سے ہوا ہے، تو پھر تجزیہ نگار دریائے سندھ اور کالا باغ ڈیم نہ بننے کا واویلا کیوں مچاتے ہیں؟
میرے ناقص علم کے مطابق پنجاب کو زیادہ تر نقصان دیگر دریاؤں سے ہوا ہے ، نہ کہ دریائے سندھ سے۔
یہ سب بحثیں بے کار ہیں۔ حکم رانوں کو چاہیے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے ٹھوس اور مستقل بنیادوں پر اقدامات کریں، ورنہ دوسری صورت میں پاکستان یوں ہی ڈوبتا رہے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










