ہر سال 8 ستمبر کو دنیا بھر میں عالمی یومِ خواندگی منایا جاتا ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد عالمی برادری کو یہ یاد دلانا ہے کہ تعلیم انسانی حقوق میں سب سے بنیادی حق ہے۔ تعلیم ہی قوموں کی ترقی کا پہلا زینہ ہے۔ افسوس کہ 21 ویں صدی کا پہلا ربع گزر جانے کے باوجود آج بھی دنیا بھر کے کروڑوں لوگ ناخواندگی کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔
’’یونیسکو‘‘ (United Nations Educational, Scientific and Cultural Organization) کے مطابق قریباً 76 کروڑ افراد دنیا بھر میں ایسے ہیں، جو پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اُن میں نصف سے زیادہ تعداد خواتین کی ہے، جو اس لحاظ سے لمحۂ فکریہ ہے کہ خواتین نے نسلوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کرنا ہوتی ہے۔
اس حوالے سے اگر پاکستان کی بات کی جائے، تو ہمیں تعلیمی شعبے میں صورتِ حال مایوس کن نظر آتی ہے۔ پاکستان کو قائم ہوئے 78 برس گزر چکے ہیں، مگر ہماری خواندگی کی شرح ابھی تک 60 فی صد کے آس پاس ہے۔ یہ شرح دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک سے کم ہے۔ ہمارے دیہات میں یہ شرح مزید کم ہو کر صرف 51 فی صد ہے۔ ہمارے مردوں میں صرف 68 فی صد خواندہ ہیں، جب کہ ہماری 52 فی صد خواتین خواندہ ہیں۔
جہاں تک خواندگی کے معیار کا تعلق ہے، تو ہماے ہاں ہر اُس فرد کو خواندہ سمجھا جاتا ہے، جو اپنے دستخط کرنے کے علاوہ معمولی پڑھنا لکھنا جانتا ہو، یعنی اس کے لیے کوئی تعلیمی معیار مقرر نہیں۔ جس مرد یا عورت نے مدرسے کا منھ بھی نہ دیکھا ہو وہ بھی خواندہ ہے، اگر تھوڑا بہت پڑھ لکھ لیتا ہو۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں ہمارے 2 کروڑ 28 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ دوسری طرف اگر ہم اپنے انفراسٹرکچر کا جائزہ لیں، تو ملک بھر کے سکولوں میں صرف 67 فی صد کو بجلی کی سہولت میسر ہے۔ صفائی، صاف پانی، واش رومز اور بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے…… خاص طور پر بلوچستان اور آزاد جموں و کشمیر میں تو صورتِ حال ناگفتہ بہ ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر 2 کروڑ 28 لاکھ سکولوں سے باہر بچے بھی داخلہ لے لیں، تو ہمارے تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی دست یابی کی کیا صورتِ حال ہو گی؟
ہمارے ہاں شرحِ خواندگی میں اضافے کی سنجیدہ کوششیں صرف جونیجو دور میں ہی دیکھی گئی تھیں۔ اُن کے بعد آنے والے حکم رانوں نے سکولوں کو تجربہ گاہ بنا کر ایسے ایسے غیرسنجیدہ فیصلے کیے کہ تعلیمی معیار پست سے پست تر ہوتا گیا۔
عالمی معیار کے مطابق سالانہ تعلیمی بجٹ کُل بجٹ کا کم از کم 4 فی صد ہونا چاہیے، جب کہ ہمارے ہاں تعلیم پر محض 1.7 فی صد خرچ کیا جاتا ہے۔ یہ اونٹ کے منھ میں زیرے کے مترادف ہے۔اگر ہمیں ترقی یافتہ ملک کا درجہ حاصل کرنا ہے، تو شرحِ خواندگی میں اضافے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ تعلیمی بجٹ میں اضافہ کر کے سکولوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی۔ دیہی اور پس ماندہ علاقوں میں بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ مطلوبہ تعداد میں اساتذہ کی فراہمی کا بندوبست کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں ’’ورلڈ بنک‘‘ اور ’’یو این اُو‘‘ جیسے عالمی اداروں کے علاوہ این جی اُوز کی خدمات حاصل کرنے کی طرف توجہ دینا چاہیے۔ دیہات میں پڑھانے والے اساتذہ کے لیے مراعاتی پیکیج متعارف کروانا چاہییں، تاکہ اساتذہ کو پس ماندہ علاقوں میں جا کر فرائض ادا کرنے کی ترغیب ملے۔
تعلیم کے زیور سے آراستہ ہر فرد اپنی قدر اور معاشرے کی ترقی کے لیے اہم محور بن سکتا ہے۔ جب عورتیں تعلیم یافتہ ہوں گی، تو نسلیں سنوریں گی۔ جب بچے سکول جائیں گے، تو ملک روشن مستقبل کی طرف گام زن ہو گا۔
عالمی یومِ خواندگی ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر ہم تعلیم کو بنیادی حق سمجھتے ہیں، تو ہمیں اس حق کے حصول اور فراہمی کو عملی حیثیت دینا ہو گی اور یہ کام صرف نعرہ یا رسم پوری کرنے کے لیے نہیں، بل کہ اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے کرنا ہو گا۔
ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ قریباً 40 فی صد پڑھائی سے محروم بچوں کو علم کی روشنی مہیا کرنے میں ہم کتنے سنجیدہ ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










