پاکستانی سرحد سے متصل افغانستان کا صوبہ کنڑ حالیہ زلزلے سے شدید متاثرہ علاقوں میں شامل ہے۔ پہاڑی سلسلوں اور دشوار گزار راستوں کے باعث امدادی اور ریسکیو کارروائیاں نہایت مشکل ثابت ہورہی ہیں۔ افغانستان کی حکومت اپنی مقدور بھر کوششوں کے ساتھ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ تاہم عالمی سفارتی تنہائی کے باعث افغانستان کی معیشت پہلے ہی کم زور ہے اور یہ زلزلہ ڈوبتے کو دھکا دینے کے مترادف ثابت ہوا ہے۔
اگر معاملہ محض زلزلے تک محدود رہتا، تو شاید کسی نہ کسی صورت حل نکل آتا، مگر صورتِ حال کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس وقت ایران اور پاکستان میں عشروں سے مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل بھی جاری ہے۔ صرف پاکستان میں ایسے افغان باشندوں کی تعداد 50 لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے، جب کہ ایران میں بھی لاکھوں افغان رہایش پذیر تھے۔ ان سب کی یک بارگی واپسی افغانستان کی حکومت کے لیے ایک نہایت کٹھن اور نازک مرحلہ ہے۔
جو لوگ افغانستان کے موسم سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کابل اور گردونواح میں سردیاں نہایت تلخ اور شدید ہوتی ہیں۔ ایسے میں لاکھوں افراد کی واپسی اور ان کی ازسرنو آبادکاری ایک کڑا امتحان ہے۔ مزید یہ کہ ان مہاجرین میں بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے، جن کی پیدایش پاکستان یا ایران میں ہوئی ہے۔ اُنھوں نے کبھی افغانستان کی خاک تک نہیں چھوئی۔ مثال کے طور پر پنجاب میں پیدا ہونے والی متعدد افغان بچیاں پشتو یا فارسی تک درست لہجے میں نہیں بول سکتیں۔ پاکستان میں مقیم ہزاروں افغان بچے یہاں کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم تھے۔ حالیہ میٹرک امتحانات میں ملاکنڈ بورڈ کے آرٹس گروپ میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی فاطمہ، جو چکدرہ مہاجر کیمپ میں رہایش پذیر افغان بچی ہے، اسی حقیقت کی ایک جھلک ہے۔
افغان نوجوانوں کا کہنا بہ جا ہے کہ افغانستان میں نہ صرف معیشت زبوں حالی کا شکار ہے، بل کہ سماجی راستے بھی مسدود ہیں۔ خواتین کو نظام میں تسلیم نہیں کیا جاتا، بچیوں کی تعلیم پر پابندی ہے اور تازہ ترین فرمان میں شعرا کو یہ تک کہا گیا ہے کہ وہ اپنی شاعری میں ’’زلف و رخ‘‘ اور ’’گیسو و لبِ جاناں‘‘ کا ذکر نہ کریں…… مگر سب سے سنگین مسئلہ خواتین کی تعلیم پر پابندی ہے، جس نے ایران اور پاکستان سے واپس جانے والے افغان مہاجرین کو سخت دل گرفتہ کر رکھا ہے۔
حالیہ تباہ کن زلزلے میں بھی سب سے زیادہ نقصان افغان خواتین نے اُٹھایا۔ کئی زخمی خواتین اس لیے جان کی بازی ہار گئیں کہ بروقت طبی امداد میسر نہ آسکی، کیوں کہ خواتین ڈاکٹروں کی عدم دست یابی نے مسئلے کو سنگین تر کردیا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جب قطری شہزادی امدادی سامان لے کر افغانستان پہنچیں، تو تمام اعلا عہدے دار اُن کے استقبال میں موجود تھے اور مکمل دورے میں اُن کے ہم راہ رہے ، وہاں کسی کے ایمان کو دھچکا لگا اور نہ غیر محرم کا سامنا مسئلہ ہی بنا…… لیکن اپنے ملک میں خواتین کی تعلیم کی باری آتی ہے، تو اسے ایمان کا سوال بنا دیا جاتا ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ آفات خواہ قدرتی ہوں، یا انسان کے پیدا کردہ…… دونوں میں مالی و جانی نقصانات ناگزیر ہیں۔ البتہ ان نقصانات کو اگر مکمل ختم نہیں، تو کم از کم بہت حد تک ضرور گھٹایا جاسکتا ہے اور اس کے لیے انسانی تدبیر ناگزیر ہے۔ تقدیر کو روکا نہ سہی، مگر تدبیر کے ذریعے تقدیر کا رُخ بدلا ضرور جا سکتا ہے۔
لہٰذا افغانستان کے لیے لازم ہے کہ زلزلے کے نقصانات ہوں، یا مہاجرین کی واپسی کا المیہ…… دونوں سے نمٹنے کے لیے ایک ہمہ جہتی اور جامع نظام تشکیل دیا جائے، جس میں خواتین سمیت ہر طبقے کے افراد کو کارآمد شہری کے طور پر تسلیم کیا جائے۔
ایران اور پاکستان سے واپس آنے والے یہ مہاجرین بہت کچھ سیکھ کر آرہے ہیں۔ افغانستان کی حکومت کو چاہیے کہ ان کے تجربات اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے، تاکہ سفارتی تنہائی کا شکار ملک اپنے عوام، خطے اور دنیا کے لیے ایک پرامن اور ترقی یافتہ افغانستان کی سمت سفر کا آغاز کرسکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










