صوبہ خیبر پختونخوا کے کالجوں سے بی ایس ڈگری پروگرام کے خاتمے کا فیصلہ نہ صرف قابلِ افسوس ہے، بل کہ یہ تعلیمی محرومیوں میں اضافے کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسے وقت میں جب شرحِ خواندگی میں اضافہ اور اعلا تعلیم تک رسائی کو وسعت دینا قومی ترجیح ہونی چاہیے، حکومت کا یہ اقدام ایک متضاد پالیسی کا عکاس ہے۔
بی ایس پروگرام کی سہولت کا بنیادی فائدہ یہ تھا کہ طلبہ و طالبات اپنے مقامی کالج میں داخلہ لے کر بغیر اضافی مالی بوجھ کے اعلا تعلیم حاصل کر سکتے تھے۔ دور دراز کے علاقوں خصوصاً پہاڑی خطوں جیسے سوات، دیر، بونیر، چترال اور کوہستان کے طلبہ کے لیے یہ سہولت کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ اب جب کہ گریجویشن کے لیے صرف یونیورسٹی ہی واحد ذریعہ رہے گی، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت نے ان تمام طلبہ کے لیے متبادل سہولیات فراہم کی ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ ایک بڑی تعداد کو روزانہ سفر، رہایش، مہنگی فیسوں اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کے نتیجے میں تعلیم ادھوری چھوڑنے والے طلبہ کی شرح میں اضافہ خارج از امکان نہیں۔ خاص طور پر خواتین کے لیے یہ فیصلہ نہایت مایوس کن ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں لڑکیوں کی تعلیم پہلے ہی کئی معاشرتی و ثقافتی رکاوٹوں کا شکار ہے، ایسے میں مقامی سطح پر بی ایس پروگرام کی بندش دراصل اُن کے لیے تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے۔
یہ تمام عوامل اَب ایک بار پھر اُن کے تعلیم کے حق کو دیمک کی طرح چاٹنے کو تیار ہیں۔ کیا یہ فیصلہ تعلیمی ترقی کے دعوے داروں کی کھلی ناکامی نہیں؟
دوسری جانب، حکومت کا موقف ہے کہ جامعات کو مستحکم کرنے کے لیے بی ایس پروگرام کو وہیں مرکوز کیا جا رہا ہے۔ یہ دلیل تب قابلِ قبول ہوتی، جب حکومت ہر ضلع اور تحصیل میں جامعات کا قیام عمل میں لا چکی ہوتی، یا طلبہ کو فیس میں رعایت، ٹرانسپورٹ اور رہایش کی ضمانت دیتی…… مگر حقیقت اس کے برعکس ہے: پہلے سے موجود جامعات وسائل کی کمی، تدریسی عملے کی قلت اور گنجایش سے زیادہ داخلوں جیسے مسائل کا شکار ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حکومت نے مقامی کالجوں کو بہتر بنانے، اساتذہ کی بھرتی، لیبارٹریز کی فراہمی اور انفراسٹرکچر کی بہتری کے بہ جائے ان کی تعلیمی حیثیت کیوں ختم کی؟
کیا عوامی کالجوں کو پرائیویٹائز یا غیر موثر بنا کر جامعات کو معاشی طور پر چلانا ریاستی فریضہ ہے؟
اگر مالی بحران ہے، تو اس کی قیمت غریب طلبہ سے کیوں وصول کی جا رہی ہے؟
یہ بات باعثِ تشویش ہے کہ تعلیم جیسے بنیادی انسانی حق کو بھی معاشی منافع یا بیوروکریٹک آسانی کے ترازو میں تولنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بی ایس پروگرام کا کالجوں سے خاتمہ ایک ایسا قدم ہے، جو تعلیم کو صرف ’’قابلِ استطاعت طبقے‘‘ تک محدود کر سکتا ہے اورر یوں طبقاتی خلیج میں مزید اضافہ ہوگا۔
ایک باشعور، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کو ہر فرد تک پہنچایا جائے…… وہ بھی سہولت، مساوات اور وقار کے ساتھ، نہ کہ مالی بوجھ، فاصلے اور خوف کے ساتھ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت فوری طور پر اس فیصلے پر نظرِ ثانی کرے۔ بی ایس پروگرام کو تحصیل و ضلعی سطح پر بہ حال کیا جائے، کالجوں کو فنڈز دیے جائیں، تدریسی عملے کی کمی دور کی جائے اور تعلیم تک رسائی کو سہل اور عام بنایا جائے۔
تعلیمی ادارے آمدن کا ذریعہ نہیں، قوم کی بنیاد ہوتے ہیں۔ ان بنیادوں کو کم زور کرنا صرف آج نہیں، آنے والے کل کو بھی خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










