پاکستان کی زمین پر ایک بار پھر آزمایش کا موسم اُترا ہے۔ آسمان سے برسنے والی بارشیں جب پہاڑوں کی چوٹیوں سے ٹکرائیں، تو پہاڑوں نے چیخ مار کر اپنی جڑوں سے پانی چھوڑ دیا۔ ندیاں بپھر گئیں، دریا غضب ناک ہو گئے، کھیت سمندر بن گئے اور بستیاں ملبے میں دب گئیں۔ کہیں کسی ماں کا بچہ پانی کی لپیٹ میں آیا، کہیں کسی بوڑھے کی چھت بہہ گئی، کہیں کسان کی فصل اُجڑ گئی اور کہیں مزدور کا کلھاڑا پانی میں ڈوب گیا۔ یہ منظر خیبر پختونخوا کے پہاڑوں میں بھی دیکھا گیا اور پنجاب کے میدانوں میں بھی۔ گویا پورا ملک ایک ساتھ چیخ اُٹھا ہے۔
بونیر، سوات اور شانگلہ کے پہاڑی اضلاع میں جب بارشوں نے قہر برسایا، تو لوگوں کے لیے جان بچانا مشکل ہو گیا۔ گاؤں گاؤں چیخ و پکار سنائی دی۔ ایک طرف پل ٹوٹ گئے، تو دوسری طرف سڑکیں دھنس گئیں۔ جن راستوں سے لوگ بازار تک پہنچتے تھے، وہ موت کا دہانہ بن گئے۔
ایک لمحے کے لیے سوچیے کہ ایک شخص اپنی بیٹی کو اسکول بھیجنے نکلا ہو، راستے میں پل بیٹھ جائے اور ریلا سب کچھ بہا لے جائے ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے عمر بھر کا سرمایہ چند منٹ میں غائب ہو جائے۔ یہ وہ دکھ ہے، جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا…… لیکن اس دکھ کے ساتھ ساتھ ایک امید کی کرن بھی ہے۔ خیبر پختونخوا کے ان پہاڑوں تک پورے پاکستان سے لوگ پہنچے۔ کہیں کسی نے اپنے کپڑوں کا تھیلا کھولا، کہیں کسی نے گندم کے بوریے بھیجے، کہیں کوئی نوجوان اپنے کندھوں پر ادویہ لاد کر نکلا۔ یہ جذبہ پاکستان کی اصل تصویر ہے۔
اب پنجاب بھی اسی کرب سے گزر رہا ہے۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ ہے کہ 117 دیہات مکمل طور پر پانی میں ڈوب گئے ہیں۔ دس لاکھ سے زیادہ افراد چھت سے محروم ہیں۔ وہ چھت، جو کل تک زندگی کی سب سے بڑی آسودگی تھی، آج محض ایک خواب ہے۔
لاہور کی ’’پارک ویو سوسائٹی‘‘ یا دیگر پوش علاقوں میں اگرچہ نکاسی کا بندوبست ہو رہا ہے، لیکن ان گھروں کی بنیادیں مسلسل پانی میں رہنے سے کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ کل کو یہ گھر رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ایک خوش حال گھرانا چند لمحوں میں بے گھر ہو جائے گا۔
وہ کسان جس کے کھیت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، آج اپنی بربادی پر بین کر رہا ہے۔ اس کی کھڑی فصل سیلاب میں ڈوب گئی۔ گندم کی سنہری بالیاں جو اناج کے گودام بھرنے والی تھیں، اب گل سڑ کر زمین میں مل گئیں۔ یہ صرف کسان کا نقصان نہیں، بل کہ پورے ملک کا ہے۔ کیوں کہ جب گندم کم ہوگی، تو روٹی مہنگی ہوگی…… جب سبزیاں ختم ہوجائیں گی، تو چولھا بھی ٹھنڈا ہو جائے گا۔
سیلاب کے گزر جانے کے بعد اصل قیامت شروع ہوگی۔ جب پانی اُترے گا، تو زمین پر تباہی کے نقوش باقی ہوں گے۔ لاکھوں خاندانوں کے پاس چھت ہوگی نہ روزگار…… بازاروں میں اجناس کی قلت ہوگی اور قلت مہنگائی کو جنم دے گی۔ ایک ایسا طوفان جو ہر گھر کی دہلیز پر دستک دے گا۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ صرف سیلاب زدہ کسان یا مزدور کا مسئلہ نہیں۔ یہ ہر پاکستانی کا مسئلہ ہے۔ کیوں کہ مہنگائی کا قہر سب پر یک ساں گرے گا۔
ایسے میں سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو حکومت کی بے حسی ہے۔ یہ وہی حکومت ہے، جو پٹرول کے ایک لیٹر پر کئی روپے ٹیکس لیتی ہے، موبائل فون کے بیلنس پر ٹیکس کاٹتی ہے، بجلی کے یونٹ پر ناجائز بوجھ ڈالتی ہے، مگر جب عوام مصیبت میں ہوں، تو اس کے پاس کوئی نظام نہیں۔
جب ریلیف کیمپ عوامی چندے سے چلتے ہیں، متاثرین کو کھانے کے پیکٹ عام لوگ فراہم کرتے ہیں اور ادویہ نوجوان عطیہ کرتے ہیں…… سوال یہ ہے کہ پھر ریاست کہاں ہے ؟ کیا اس کا کردار صرف ٹیکس لینے اور قرضہ لینے تک محدود رہ گیا ہے؟
پاکستان میں یہ پہلا سیلاب نہیں۔ ہر چند سال بعد یہ منظر دہرایا جاتا ہے۔ کبھی سندھ ڈوبتا ہے ، کبھی خیبر پختونخوا، تو کبھی پنجاب…… مگر ہر بار حکومت صرف تصویریں کھنچواتی ہے اور بیان دیتی ہے ۔ کوئی پالیسی نہیں، کوئی بندوبست نہیں۔ نئے ڈیم بنتے ہیں، نہ نکاسیِ آب کے نظام کی اصلاح ہوتی ہے اور نہ دریا کے کناروں پر حفاظتی بند ہی مضبوط کیے جاتے ہیں۔
تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا یہ قوم ہر بار اپنی بربادی کے ملبے پر کھڑی ہوگی…… کیا ہر بار صرف عوام ہی عوام کا سہارا بنیں گے؟
یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستان کی اصل طاقت عوام ہیں۔ خیبر پختونخوا کے متاثرین کے لیے کراچی کے شہریوں نے اپنا خون پسینہ دیا۔ پنجاب کے سیلاب زدگان کے لیے بلوچستان اور سندھ سے امداد پہنچ گئی ۔ یہ جذبہ، یہ قربانی ہی وہ سرمایہ ہے، جو اس ملک کو زندہ رکھے ہوئے ہے ۔ سیلاب گزرنے کے بعد اصل امتحان شروع ہوگا۔ لاکھوں خاندانوں کو چھت فراہم کرنا ہوگی۔ کسان کو بیج دینا ہوگا، قرض دینا ہوگا۔ بچوں کو دوبارہ کتابیں اور بستے دینا ہوں گے۔ مزدور کو روزگار فراہم کرنا ہوگا۔ یہ سب حکومت کے بس میں ہے ، اگر وہ چاہے…… لیکن اگر یہ سب نہ کیا گیا، تو پاکستان کے لاکھوں خاندان مستقل غربت اور مایوسی کا شکار ہوجائیں گے۔
پاکستان کو اَب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کب تک صرف آفات کا شکار بنتا رہے گا اور ان کے بعد چند بیانات پر اکتفا کرے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست اپنی ترجیحات بدلے ۔ عوام کی خدمت کو اصل فریضہ سمجھے ۔ ورنہ وہ دن دور نہیں، جب عوام کا اعتماد ٹوٹ جائے گا اور ریاست کا وجود کم زور پڑ جائے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










