فکری سانحہ

Blogger Ishaq Zahid

سیاسی و نظریاتی یرغمالی پن شاید آج کے دور کا سب سے خطرناک ذہنی مرض بن چکا ہے۔ ایسے افراد جو کسی خاص فکر، جماعت یا شخصیت کے اندھے پیروکار بن جاتے ہیں، اُن کے لیے دنیا صرف ایک رنگ رکھتی ہے، اُن کی پسند کا۔ باقی سب یا تو غلط ہیں یا پھر دشمن……!
ایسے لوگ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا کو نہیں دیکھ پاتے۔ اُن کی بصارت محدود، بصیرت بند اور دل و دماغ تعصب کی زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں۔ وہ دلیل سے زیادہ نعرے، تحقیق سے زیادہ جذبات اور سچائی سے زیادہ وابستگی کو اہمیت دیتے ہیں۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا نے اس بیماری کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ’’الگورتھمز‘‘ (Algorithms) ہمیں وہی دکھاتے ہیں، جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، سننا چاہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ایک ’’ایکو چیمبر‘‘ (Echo Chamber) میں قید ہوجاتے ہیں، جہاں صرف ہماری سوچ کی بازگشت سنائی دیتی ہے…… اور ہر مخالف آواز کو ہم جھوٹ، غداری یا شر پھیلانے والی آواز سمجھتے ہیں۔
سیاسی لیڈران بھی اسی تقسیم کو اپنا ہتھیار بناتے ہیں۔ وہ فکری آزادی کے بہ جائے جذبات کو ہوا دیتے ہیں۔ لوگ بحث نہیں کرتے، لڑتے ہیں۔ اختلافِ رائے کو عزت نہیں دی جاتی، اسے کچلا جاتا ہے۔
یہ کیفیت صرف فرد کا مسئلہ نہیں، بل کہ ایک مکمل فکری سانحہ ہے۔ کیوں کہ جب معاشرے کی بڑی تعداد ایسے رویے اپنا لیتی ہے، تو پھر مکالمہ ختم ہوجاتا ہے، اختلاف دشمنی بن جاتا ہے اور سیاست، خدمت کے بہ جائے نفرت کا میدان بن جاتی ہے۔
یونیورسٹیوں کے طلبہ، جنھیں شعور و علم کا محور ہونا چاہیے، آج سیاسی وراثت کے محافظ بن چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تربیت کے بہ جائے نفرت کا زہر پلایا جا رہا ہے۔ ’’ٹرینڈز‘‘، ’’میمز‘‘ اور گالم گلوچ کو ’’رائے عامہ‘‘ کی شکل دے دی گئی ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سیاسی وابستگی کو عقیدت کا درجہ دینا چھوڑیں اور ہر بات کو دلیل، علم اور حقیقت کی بنیاد پر جانچیں۔ کیوں کہ سیاسی شعور کا مطلب صرف ووٹ دینا نہیں، بل کہ خود کو فکری طور پر آزاد رکھنا ہے۔ اگر ہم نے اپنے فکری قبلہ خود نہ چنا، تو کوئی دوسرا ہمارے ذہن، زبان اور ضمیر کا مالک بن جائے گا اور یہ سب سے بڑا فریب ہو گا، جو بہ ظاہر شعور کی صورت میں ہوگا، مگر درحقیقت ایک خطرناک قید ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے