صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں مشرقِ وسطیٰ میں امن اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے ستمبر 2020ء کو اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے درمیان ایک معاہدہ کرایا، جسے ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کا نام دیا۔ معاہدے کا نام ابراہیم (ابراہام) رکھنے کا مقصد یہ بتایا گیا کہ مسیحی، یہودی اور مسلمان سبھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلیل القدر پیغمبر مانتے ہیں، جب کہ بعض دانش وروں کے نزدیک ہندو بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسبت رکھنے کا دعوا کرتے ہیں۔ اس لیے کہا گیا کہ کسی کو اس معاہدے پر اعتراض نہیں ہوگا۔
سامراجیوں کی یہ دلیل بالکل من گھڑت اور بے بنیاد ہے۔ کیوں کہ قرآنِ کریم، فرقانِ حمید کی سورۂ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:’’ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے، نہ عیسائی تھے اور نہ مشرک، بل کہ وہ موحد مسلمان تھے۔‘‘
عالمی مفاد پرست قوتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہودی، عیسائی اور مشرکوں کی صف میں کھڑا کرنا چاہتی ہیں۔
’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کی بات بہ ظاہر عرب اور اسرائیلی سفارتی تعلقات کے حوالے سے کی جاتی ہے، لیکن اس کے درپردہ مقاصد کچھ اور ہیں۔ ایک عرصے سے استعماری طاقتیں عالمی سطح پر اس کوشش میں ہیں کہ مذاہب کے مابین ہم آہنگی، باہمی افہام و تفہیم یا ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کی کوئی صورت نکالی جائے ۔
عالمی طاقتوں نے طے کر رکھا ہے کہ مذہب کو معاشرتی کردار اور سیاسی و تہذیبی ماحول سے الگ کر کے صرف عقائد اور اخلاقیات کے دائرے میں محدود کیا جائے۔ اس منصوبے کو قبول کرانے میں صرف اسلامی معاشرہ ہی رکاوٹ ہے۔ کیوں کہ امتِ مسلمہ کے عوام، اسلام کے معاشرتی اور تہذیبی کردار سے دست بردار ہونے پر کسی صورت آمادہ نہیں۔
اسلام کے خلاف یہ سازشیں اُس وقت سے جاری ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دینِ اسلام کی دعوت شروع کی۔ اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مختلف مواقع پر ابراہیمیوں کی طرف سے پیش کشیں کی گئیں، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے :’’تھوڑی سی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے عقیدے میں نرمی کریں اور تھوڑی سی ہم نرمی کر لیتے ہیں۔‘‘ (سورۃ القلم)
سیرت کی کتابوں میں ہے کہ جناب ابوطالب کی وفات سے چند دن پہلے قریش کے سرداران نے محسوس کیا کہ اگر مصالحت کرنی ہے، تو یہی وقت ہے ۔ وہ اکٹھے ہو کر ابوطالب کے پاس آئے اور عرض کی کہ اپنے بھتیجے سے ہماری بات کروائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بلایا گیا۔ مذاکرات میں مشرکین نے دو فارمولے اور تین پیش کشیں رکھیں۔
٭ پہلا فارمولا:۔ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم توحید کی بات کریں اور اللہ کی صفات بیان کریں، لیکن ہمارے بتوں کی نفی نہ کریں۔
٭ دوسرا فارمولا:۔ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خانہ کعبہ میں اللہ کی عبادت کریں، ہمیں اعتراض نہیں…… لیکن ہم اپنے بت خانوں میں کریں گے۔ کبھی ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آ جائیں اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لے آئیں۔
اس طرح وہ تین پیش کشیں کچھ یوں تھیں:
٭ جتنے پیسے چاہیے ہم دیں گے۔
٭ عرب کی جس خاتون سے نکاح کرنا چاہیں، ہم کرا دیں گے۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائش کریں، تو ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو علاقے کا سردار بنا دیتے ہیں۔
اس کے جوا ب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمیا:’’اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیا جائے، تب بھی میں یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔‘‘
یہی حقیقت سورۃ القلم اور سورۃ الکافرون میں بھی واضح کی گئی ہے۔
عامر بن طفیل، جو ایک بڑے قبیلے کے سردار تھے، نے بھی مذاکرات میں کہا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہیں، مگر ایک شرط مان لیں، یا تو میدانی علاقے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اور شہری علاقے ہمارے ہوں، یا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے بعد مجھے خلیفہ نام زد کر دیں۔ ورنہ میں بنو غطفان کے لاکھوں افراد کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہوں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اسے مہلت نہ دی اور وہ طاعون کے پھوڑوں سے ہلاک ہوا۔
اسی طرح مسیلمہ کذاب نے بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شراکت کی پیش کش کی اور ایک خط بھیجا۔اُس نے کہا کہ ’’مجھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ شریک نبی بنایا گیا ہے ۔‘‘
لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی تمام شرائط مسترد کر دیں۔ آخرِکار مسیلمہ کذاب کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جنگ یمامہ میں ہلاک کیا گیا۔
اسلام دشمن طاقتیں آج بھی سمجھتی ہیں کہ صرف مسلمان ہی اُن کے مقاصد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اسی لیے عالمی سطح پر مختلف مذاہب کے درمیان مکالمہ، ہم آہنگی اور یک جہتی کے نام پر سرگرمیاں منظم کی جا رہی ہیں، تاکہ مسلم دنیا کو استعماری فلسفے کے دائرے میں محصور کیا جا سکے۔
شکاگو میں مرزا بہاء اللہ شیرازی کے پیروکاروں کا ایک بڑا مرکز قائم ہے، جب کہ وہ خود ’’عکہ‘‘ (اسرائیل) میں مدفون ہے۔
بہائی عقیدے کے ماننے والوں کے نزدیک دنیا کے تمام مذاہب برحق ہیں اور بہائیت ان سب کی جامع ہے۔
اس طرح شکاگو کے مرکز میں ایک ہال میں چھے مذاہب کی عبادت گاہیں بنائی گئی ہیں……ایک کونے میں مسجد، دوسرے میں چرچ، تیسرے میں مندر، چوتھے میں یہودیوں کا سینی گاگ، ہال کے وسط میں گردوارہ اور بدھوں کی عبادت گاہ ہے۔ ہر ایک کو اپنے طریقے کے مطابق عبادت کی اجازت ہے ۔
قارئین! میرے نزدیک ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کے پیچھے یہی تصور کارفرما ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی مسلمانوں کو غلامی کا طوق پہنانے میں بڑی حد تک کام یاب ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ صدر ٹرمپ نے مسلمان حکم رانوں کو مشورہ، بل کہ دھمکی دی ہے کہ زندہ رہنے کے لیے آپ کے پاس ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ میں شمولیت کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
پاکستان میں بھی اِدھر اُدھر سے ایسی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جن میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اشارے دیے جاتے ہیں۔ یہ نہایت قابلِ مذمت رویہ ہے اور اہلِ علم و دینی قیادت کی فوری توجہ کا طالب ہے۔










