پاکستان کی سیاسی تاریخ کا تجزیہ کرنے پر یہ بات بڑی واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ تمام حکومتوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے قانون سازی کی ہے، مگر اس کے باوجود ملک میں ایسا موثر سسٹم قائم نہیں کیا جا سکا، جس کے تحت ادارے اور حکومتی ڈھانچا ایک مستقل اور مضبوط بنیاد پر کام کرسکے۔
جب ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہر حکومت کا پہلا مقصد اپنے اقتدار کو مستحکم کرنا اور اسے پائیدار بنانا رہا۔ تاہم، ان حکومتوں کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی یا آئینی اصلاحات کا ایک بنیادی پہلو یہ تھا کہ ان سب کا مرکزی مقصد خود کو دوبارہ اقتدار میں آنا اور عوامی اداروں کو اپنے تابع رکھنا رہا۔
دنیا کے مختلف ممالک کی مثالیں دی جا سکتی ہیں، جہاں بادشاہت، امریت یا جمہوریت کا نظام چل رہا ہے، لیکن ان سب میں ایک مضبوط سسٹم ہوتا ہے۔ ان ممالک میں آئین، قوانین اور اداروں کا ایک مربوط ڈھانچا ہوتا ہے جو ملک کی پائیداری اور استحکام کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
پاکستان میں معاملہ مختلف ہے۔ یہاں کی حکومتیں ہمیشہ اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش میں رہیں، مگر کسی بھی حکومت کو ایسا پائیدار سسٹم بنانے کی توفیق نہ مل سکی، جس کے ذریعے ملک کا انتظام اور حکومتی معاملات کسی ایک شخص یا گروہ کے تابع نہ ہوں۔
پاکستان کی حکومتوں میں کی جانے والی قانون سازی ہمیشہ سیاسی مفادات کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے، نہ کہ ملک کے مفاد کو دیکھتے ہوئے۔ مختلف حکومتوں نے آئینی اصلاحات، انتخابی اصلاحات اور انتظامی تبدیلیوں کے نام پر اپنے اختیارات کو مستحکم کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ تمام اقدامات اکثر ایک ہی مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش تھی……’’اقتدار کا تسلسل۔‘‘
جس حکومت نے بھی قانون سازی کی، اُس کا مقصد اپنے اقتدار کو پائیدار بنانا تھا۔ اگرچہ یہ قانون سازی عوام کے فائدے میں دکھائی دیتی تھی، لیکن اس کے پیچھے ہمیشہ سیاسی مفاد اور اقتدار کی بقا کی سوچ کارفرما رہی۔ نتیجتاً ملک کا سسٹم ہمیشہ سیاسی مفادات کی نذر ہو گیا، جس کے باعث ادارے ، قوانین اور فیصلے حکومتوں کی چاہت کے مطابق چلتے رہے۔
پاکستان میں سیاسی سسٹم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تمام حکومتی محکمے اور ادارے وزیروں، ایم این ایز اور ایم پی ایز کے تابع ہیں، جنھیں عام طور پر سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہر حکومت کی طرف سے یہ کوشش کی گئی کہ سیاسی وفاداریاں خریدنے اور اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے اداروں میں سیاسی مداخلت کی جائے۔
افسر شاہی اور ملازمین، جو کہ عوامی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کا حصہ ہوتے ہیں، ان کا مقصد ہمیشہ اپنے سیاسی آقاؤں کے احکامات پر عمل کرنا بن جاتا ہے۔ نتیجتاً، ان اداروں میں مفاد پرستی اور من مانی کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے، جس سے عوامی مفاد کی بہ جائے ذاتی مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ملک میں کسی بھی شعبے کی ترقی یا بہتری نظر نہیں آتی، کیوں کہ ان محکموں میں کام کرنے والے افسران یا ملازمین اپنے سیاسی تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں، نہ کہ اپنے فرائض کی بجا آوری کو۔
جب حکومتیں اپنے اقتدار کے دوران میں اپنے مخالفین کو نظرانداز کرتی ہیں اور اداروں کو اپنے تابع کرلیتی ہیں، تو اس کا نتیجہ ایک کم زور سسٹم کی صورت میں نکلتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں کی بنا پر ادارے مضبوط ہونے کی بہ جائے ہمیشہ ان کے زیرِ اثر کام کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستی ادارے کسی مستقل سسٹم کے تحت نہیں چل رہے، بل کہ حکومتوں کے سیاسی مفادات کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔
ایک مضبوط حکومت وہ ہوتی ہے، جو اپنے سسٹم کی تشکیل کے لیے کوئی مضبوط آئین یا نظام بناتی ہے، جس میں ادارے خود مختار ہوں اور عوام کے حقوق کی حفاظت کی جا سکے…… لیکن پاکستان میں یہ صورتِ حال ہمیشہ کم زوری کا شکار رہی ہے، جس کی وجہ سے ادارے اپنے فرائض کی بہ جائے حکومتوں کی رضا کے تابع ہو جاتے ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں دیکھا جائے، تو وہاں ایک مضبوط سسٹم قائم ہے، جس کے ذریعے حکومتیں چلتی ہیں۔ چاہے وہ جمہوریت ہو یا بادشاہت، ان ممالک میں ایک منظم اور پائیدار سسٹم ہے، جو اقتدار کی تبدیلیوں کے باوجود اپنی بنیاد پر قائم رہتا ہے۔ ان ممالک میں سیاسی جماعتیں یا آمری حکام چاہے جو بھی ہوں، وہ اپنے اقتدار کو پائیدار بنانے کے بہ جائے اداروں کی مستقل بنیادوں پر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان ممالک میں سیاسی جماعتوں کا کردار اداروں کی مضبوطی کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ اپنی حکومت کو دوام بخشنے کی خاطر۔
پاکستان میں اس وقت ضرورت ہے ایک ایسے مضبوط سسٹم کی، جو قانونی اداروں اور آئین کی بنیاد پر چلے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اقتدار کو مستحکم کرنے کی بہ جائے ملک کے اداروں کو خود مختار بنانے پر زور دیں، تاکہ ملک کا سسٹم پائیدار ہو اور عوامی مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ ایک ایسا سسٹم جس میں ادارے سیاسی دباو سے آزاد ہوں اور وہ اپنے فرائض کو صحیح طریقے سے ادا کر سکیں۔ اس سسٹم کے تحت، حکومتیں آئینی اور قانونی حدود میں رہ کر کام کریں گی اور ملک کے عوام کو انصاف، ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گام زن کیا جا سکے گا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حکومتوں کا بنیادی مقصد ہمیشہ اپنے اقتدار کو دوام دینا رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط سسٹم کی تشکیل کی ضرورت ہمیشہ نظرانداز کی گئی۔ جب تک پاکستان میں اداروں کو مضبوط اور آزاد نہیں کیا جائے گا، اُس وقت تک ملک میں ایک پائیدار اور کام یاب سسٹم قائم کرنا ممکن نہیں۔
پاکستان کو وہ وقت درکار ہے، جب حکومتیں عوامی مفاد کو مقدم رکھ کر، اپنے سیاسی مفادات سے ہٹ کر، ایک مستقل اور مضبوط نظام کے تحت کام کریں۔ تب ہی ہم اپنے ملک میں ایک کام یاب اور خوش حال مستقبل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










