آفتوں میں متحد ہونے والی قوم

Blogger Ikram Ullah Arif

گلگت، سوات اور بونیر میں سیلاب متاثرین کے مسائل جوں کے توں تھے کہ پنجاب میں بھی سیلاب نے لاکھوں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خدا کرے کہ یہ پانی بہ خیر سندھ سے گزر جائے ۔ پورے ملک میں انسانی اور مالی نقصانات کا درست تخمینہ ابھی تک نہیں لگایا جا سکا۔ حکومتی ادارے کم سرگرم ہیں، جب کہ فلاحی تنظیمیں حد سے زیادہ فعال کردار ادا کر رہی ہیں، تاکہ ہم وطنوں کو بچایا جاسکے۔
بونیر اور سوات میں چشمِ فلک نے عجیب و غریب مناظر دیکھے۔ مثلاً: الخدمت فاؤنڈیشن، خدائی خدمتگار اور مدارس کے طلبہ نے سیاسی و نظریاتی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر متاثرین کی خدمت کے لیے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے۔ بونیر سے ہمارے عزیز صحافی دوست شبیر بونیری متاثرین کی آواز بن کر نیک نامی کماتے رہے، جب کہ سوات سے لفظونہ ڈاٹ کام کے قابلِ احترام ایڈیٹر امجد علی سحابؔ نے کیمرے کی آنکھوں سے اوجھل انسانی خدمت میں اپنی توانائیاں کھپا دیں۔ خدا ان سب سے راضی ہو، آمین!
مزید کئی ادارے اور افراد ہیں، جو دن رات خدمتِ انسانی میں مصروفِ عمل ہیں۔ بونیر میں الخدمت کی خواتین رضاکاروں نے مجھے بے حد متاثر کیا، جنھوں نے ایک روایتی معاشرے میں مکمل پردے اور روایت کے ساتھ متاثرہ خواتین کی نعشوں کو غسل دینے اور کفن پہنانے کے انتظامات کیے۔ مسلسل چار پانچ دن تک یہ خواتین اپنے گھروں سے دور رہیں، تاکہ خواتین کی لاشوں کا احترام محفوظ رہ سکے۔
مینگورہ اور بونیر میں ملک کے کونے کونے ، خاص طور پر ملاکنڈ ڈویژن سے ، بے شمار رضاکار آئے اور اپنے متاثرہ بہن بھائیوں کا سہارا بنے۔ بھرے پرے گھروں پر جب آفت آتی ہے، تو انسان ہیرے جواہرات سمیت سب کچھ بھول جاتا ہے۔ امدادی کاموں کے دوران میں مختلف رضاکاروں کو قیمتی اشیا بھی ملیں، مگر آج تک سب نے وہ سامان اپنے دفاتر میں جمع کروایا، تاکہ اصل متاثرین تک پہنچ سکے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ کسی تنظیم کے کسی رضاکار پر چوری یا بدسلوکی کا الزام نہیں لگا۔
یہ منظر بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب نیشنل پارٹی کے قائدین نے الخدمت کے کیمپوں کا دورہ کیا اور جماعتِ اسلامی کے قائدین خدائی خدمتگار کے کیمپوں میں پہنچے۔ حالاں کہ دونوں کے درمیان سیاسی و نظریاتی فاصلے بہت ہیں، مگر خدمتِ انسانی کا مشترکہ جذبہ نمایاں رہا۔ یہ دیکھ کر دل نے کہا کہ آخر پختون قوم آفتوں میں ہی کیوں متحد ہوتی ہے؟ بونیر، سوات اور باجوڑ میں جب آفت آئی، تو سب یک جا ہوگئے، کوئی پارٹی رہی نہ نظریات…… مقصد فقط متاثرین کی بہ حالی اور مدد رہا۔
سوچتے سوچتے یاد آیا کہ یہ المیہ فقط پختونوں کا نہیں، بل کہ پورے ملک کا ہے۔ 2005ء میں بالاکوٹ کا بدترین زلزلہ آیا، تو چترال سے کراچی تک پورا ملک ایک ہوگیا۔ چند ماہ قبل بھارت سے محدود جنگ ہوئی، تو بھی اتحاد و اتفاق کی فضا قائم ہوئی۔ اب جب سیلاب نے ملک کا نقشہ بدل دیا، تو بھی ہم ایک ہوگئے…… مگر کاش! یہ اتفاق خوشی کے دنوں میں بھی قائم رہتا، اور ہمیں متحد ہونے کے لیے کسی آفت کا انتظار نہ کرنا پڑتا۔
امن اور ترقی کے دنوں میں اگر اسی طرح اتحاد کا مظاہرہ ہو، اور ٹمبر مافیا اور تجاوزات مافیا کے خلاف اجتماعی جد و جہد کی جائے، تو بعید نہیں کہ ہمارے جنگلات اور پانی کے قدرتی راستے محفوظ ہوجائیں۔ تب سیلاب آئے بھی، تو نقصانات اتنے ہول ناک نہ ہوں گے۔
گذشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس میں این ڈی ایم اے کے سربراہ جنرل نے خبردار کیا کہ آیندہ سال آنے والے سیلاب کی شدت رواں سال سے 22 فی صد زیادہ ہوگی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟ اس شدت کو کم کرنے کے لیے ابھی سے ہر مافیا، خصوصاً ٹمبر اور تجاوزات مافیا کے خلاف اتحاد کرنا ہوگا، تاکہ آفات کے راستے مکمل نہیں، تو کم از کم محدود ضرور کیے جا سکیں۔
اگر ایسا نہ ہوا اور اتحاد کے لیے آفتوں کا انتظار کرنا پڑا، تو امن، سکون اور ترقی کے خواب چھوڑنے ہوں گے۔ ہر آفت کو محض خدائی مرضی کَہ کر ذمے داریوں سے فرار اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں آفات کے آنے سے پہلے ان کے خلاف متحد ہونا ہوگا، تاکہ وہ وسائل، جو آفات سے نمٹنے پر خرچ ہوتے ہیں، علم، ترقی اور خوش حالی پر لگائے جا سکیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے