تعلیمی اصلاحات یا بیوروکریسی کی افزایش؟

Blogger Syed Asrar Ali

پاکستان کی تاریخ میں اگر کوئی چیز مستقل ہے، تو وہ ہے ’’نازک موڑ‘‘۔ ملک کبھی معیشت کے نازک موڑ پر پسینہ پونچھتا ہے، توکبھی سیاست کے نازک موڑ پر اندھی گلیوں میں بھٹکتا ہے…… اور کبھی خارجہ پالیسی کے نازک موڑ کے کچے گھاٹ پر پاؤں ٹٹولتا ہے، جب کہ تعلیم ہمیشہ ہر نازک موڑ کے سائے میں ہانپتی کانپتی رہتی ہے۔ ہر آنے والی حکومت دعوا کرتی ہے کہ وہ تعلیمی انقلاب لائے گی، یا تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرے گی، لیکن نتائج ہمیشہ ’’ایمرجنسی ایگزٹ‘‘ سے نکل جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیمی انقلاب، جلسوں کے اسٹیج پر آتا ہے اور سکول کے گیٹ پر دم توڑ دیتا ہے۔
پاکستان میں تعلیم ہمیشہ ایک قومی مسئلہ رہا ہے۔ ہر دورِ حکومت نے نعرے لگائے، کمیٹیاں بنائیں، فنڈز مختص کیے، پالیسیاں تیار کیں اور بڑے بڑے دعوے کیے…… لیکن اگر ہم اعداد و شمار پر نظر ڈالیں، تو صورتِ حال ایک تلخ حقیقت کی طرح سامنے آتی ہے کہ جتنی اصلاحات کا شور بڑھا ہے، اتنے ہی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار کی جانے والی تعلیمی اصلاحات اکثر ناکام ہو جاتی ہیں اور معاشرہ ایک ہی دائرے میں چکر کاٹتا رہتا ہے۔
پچھلے ہفتے، ماہرِ تعلیم اور سینئر ڈوپلیمنٹ پروفیشنل راجہ سعد صاحب نے فیس بک پر شعبۂ تعلیم کو درپیش مسائل پر مختصر مگر پراثر شذرے لکھے۔ خیبرپختونخوا کے بارے میں انھوں نے لکھا کہ 15 سال پہلے وہ محکمۂ تعلیم میں کام کرتے تھے (پروگرام ڈائریکٹر۔ ایجوکیشن سیکٹر ریفارم یونٹ) تو اس وقت وہاں ایک سپیشل سیکرٹری، ایک ایڈیشنل سیکرٹری، ایک ڈائریکٹر ریفارمز، دو ڈپٹی سیکرٹری اور آٹھ سیکشن آفیسرز موجود تھے۔ اُس وقت صوبے میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 28 لاکھ تھی، لیکن جب وہ 2022ء میں (یعنی 12 سال بعد) دوبارہ پشاور گئے، تو محکمۂ تعلیم کی بیوروکریسی کا حجم کئی گنا بڑھ چکا تھا…… 2 سپیشل سیکرٹری، 5 ایڈیشنل سیکرٹری، 14 ڈپٹی سیکرٹری اور 32 سیکشن آفیسر۔ اس کے علاوہ ایک ریفارمز یونٹ، ایک ڈی جی مانیٹرنگ اپنے عملے کے ساتھ، پلاننگ سیل اور "EMIS” جیسے یونٹس بھی مزید پھیل چکے تھے، مگر دوسری طرف سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 28 لاکھ سے بڑھ کر 49 لاکھ ہو گئی تھی۔
سی نارتھکوٹ پارکنسن نے 1955ء میں کہا تھا: "Work expands so as to fill the time available for its completion”. اور ساتھ ہی یہ حقیقت بیان کی تھی کہ بیوروکریسی اپنی ساخت میں ہمیشہ پھیلتی ہے، چاہے اصل کام بڑھے یا نہ بڑھے۔ ہر افسر اپنے ماتحت چاہتا ہے، حریف نہیں۔ اس لیے وہ مزید عملہ بھرتی کرتا ہے, تاکہ اپنی اہمیت کو بڑھاسکے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کاغذی کارروائی، فائلوں کا ڈھیر اور نگرانی کی تہیں بڑھتی جاتی ہیں، لیکن اصل مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے۔
خیبرپختونخوا کے تعلیمی منظرنامے پر برسوں سے ایک ایسا کھیل کھیلا جا رہا ہے جس کے قواعد اور طریقہ کار تو بدلتے رہتے ہیں، مگر نتیجہ ہمیشہ ایک ہی نکلتا ہے۔’’تعلیم کی جھولی خالی، دعووؤں کی ٹوکری بھاری‘‘۔ ہر سال کسی وزیر یا مشیر کے دماغ میں اصلاحات کا ایک ’’وڈا‘‘ بلب جلتا ہے، فوراً نئی پالیسی کی تختی لگائی جاتی ہے اور اعلان ہوتا ہے کہ اب تعلیم میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔ نتیجتاً کبھی مفت کتابیں بانٹنے سے تعلیمی انقلاب آتا ہے، تو کبھی بچوں کوگھی کے ڈبے اور بسکٹ تقسیم کرنے سے۔ بس داخل بچوں کی تعداد زیادہ ہو نہ ہو، کسی کا کھاتا برابر ہوجاتا ہے اور کوئی ’’غوڑ‘‘ (چکنا) بن جاتا ہے۔
پھر کسی اوروقت اساتذہ کی تربیت کو سب سے بڑا نزلہ سمجھا جاتا ہے اور ٹریننگ کے نام پر پاؤر پوائنٹ کی گولیاں بانٹنے شروع ہوجاتے ہیں۔ ابھی تربیت کا عمل جاری ہوتا ہے کہ اچانک نصاب کی تبدیلی کا شور اُٹھتا ہے اور پرانے نصاب پر ایسے لعنت بھیجی جاتی ہے، جیسے کل تک اسی نصاب نے سب کو جاہل بنا دیا تھا۔
کبھی کہا جاتا ہے کہ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ سکول میں ٹوائلٹ نہیں، توکبھی کہا جاتا ہے کہ سکولوں کے ساتھ کھیلوں کے میدان نہ ہونے کی وجہ سے ترقی نہ ہوسکی۔ پھر ایک دن سائنس لیب کو انقلاب کا ذریعہ بتایا جاتا ہے، تو دوسرے دن کمپیوٹر کو جادو کی چھڑی سمجھا جاتا ہے…… اور تیسرے دن امتحانی نظام پر ماتم کیا جاتا ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ سب باتیں درست بھی ہیں۔ کیوں کہ یہ سب واقعی مسائل ہیں…… لیکن سوال یہ ہے کہ جب یہ سب مسائل درست ہیں اور سب پر کبھی نہ کبھی کام بھی ہوا ہے، تو پھر اصلاحات کام یاب کیوں نہیں ہوتیں؟ اس کا جواب یہی ہے کہ اصلاحات ہمیشہ ٹکڑوں میں کی جاتی ہیں اور زیادہ تر ڈونرز کے دباواور ہدایات پر مبنی ہوتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی ایک پہلو پر وقتی طور پر کام ہو بھی جائے، تو باقی پہلو اپنی جگہ جوں کے توں رہتے ہیں۔ یوں مسئلے کی جڑ برقرار رہتی ہے اور اصلاحات کے اثرات دیرپا ثابت نہیں ہوتے ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اصلاحات کے نام پر زیادہ زور انتظامی ڈھانچے کو پھیلانے پر ہوتا ہے۔ نئے نئے یونٹ، نئی نئی پوسٹیں اور زیادہ سے زیادہ افسران تعینات کر دیے جاتے ہیں…… لیکن کیا اس سے کلاس روم کے اندر بچے کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے؟ کیا استاد کے رویے، تدریسی معیار یا سکول کے ماحول میں کوئی بہتری آتی ہے ؟ جواب اکثر نفی میں ہوتا ہے۔ اصل فائدہ کے بہ جائے صرف بیورو کریسی کا حجم بڑھتا ہے، جو ’’پارکنسنز لا‘‘ کی عکاسی ہے ۔
اس لیے سب سے پہلے تو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ تعلیم کے مسائل کسی ایک نقطے یا ایک پروجیکٹ سے حل نہیں ہوں گے۔ یہ ایک جامع مسئلہ ہے جس کے لیے مربوط اور دیرپا حکمتِ عملی چاہیے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اصل سرمایہ کاری بچے اور استاد پر ہونی چاہیے، نہ کہ نئی نئی مانیٹرنگ ٹیموں یا ڈونر کی پسندیدہ مہمات پر۔ نصاب کی اصلاح اپنی جگہ ضروری ہے، لیکن نصاب تبھی کام یاب ہوگا، جب اُستاد اس پر عمل درآمد کر سکے گا۔ انفراسٹرکچر کی بہتری ضروری ہے، مگر وہ تبھی کار آمد ہے، جب سکول میں اُستاد اور طالب علم موجود ہوں۔
ڈونر کی ترجیحات کو اندھا دھند قبول کرنے کے بہ جائے اپنی زمینی حقیقت کے مطابق پالیسیاں بنانی ہوں گی۔ اصلاحات کو ٹکڑوں میں کرنے کے بہ جائے ایک جامع حکمتِ عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بیوروکریسی کے پھیلاؤ کو روک کر اصل کام کرنے والوں یعنی اساتذہ اور طلبہ پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ ’’پارکنسنز لا‘‘ سے ہمیں یہ سبق لینا چاہیے کہ اگر بیوروکریسی بڑھتی رہی اور اصل مسئلے پر توجہ نہ دی گئی، تو آنے والے برسوں میں ’’آؤٹ آف سکول چلڈرن‘‘ کی تعداد مزید بڑھ سکتی ہے ، خواہ کتنی ہی اصلاحات اور پالیسیاں کیوں نہ بن جائیں۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تعلیم کے شعبے کو بچانے کے لیے سب سے پہلے ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ اصلاحات صرف فائلوں، یونٹس اور بیوروکریسی بڑھانے سے کام یاب نہیں ہوتیں۔ اصل اصلاح وہ ہے، جو کلاس روم میں نظر آئے…… جہاں بچہ سکول آئے، استاد پڑھائے اور تعلیم کا معیار بہتر ہو۔ اگر ہم یہ کر پائے، تو شاید وہ دن بھی دیکھ سکیں جب تعلیمی انقلاب ہورڈنگ کے بہ جائے بلیک بورڈ پرنظر آئے اور کمرائے جماعت میں معلم کی آواز، وزیر تعلیم کی تقریر سے زیادہ شور مچائے۔ بہ صورتِ دیگر، ہم یوں ہی ’’پارکنسنز لا‘‘ کے زندہ ثبوت بنتے رہیں گے ۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے