برطانوی سامراج کی برصغیر کی غیر فطری تقسیم کی جھلک آج بھی نظر آتی ہے۔ اِس وقت برصغیر پاک و ہند سیلابی صورتِ حال اور موسمی تغیرات کی زد میں ہے۔ انڈس بیسن کا نظام، جہاں معاون دریا دریائے سندھ میں آکر ایک مکمل دھارا بناتے ہیں، صدیوں تک قدرتی توازن کا ضامن رہا…… لیکن سامراج نے قدیم نوآبادیاتی ڈھانچے سے جدید سرمایہ دارانہ نظام تک اسے اپنے زیرِ دست رکھنے کے لیے غیر فطری تقسیم کی۔
یہ تقسیم محض خلیج بنگال تک محدود نہ تھی، بل کہ بھوٹان، نیپال، لداخ، کشمیر، وسطی ایشیائی خطے ، ڈیورنڈ لائن، ترکی اور قبرص سے ہوتے ہوئے یورپ اور وہاں سے افریقہ تک جا پہنچی۔ تقسیمِ برصغیر، تاج برطانیہ کی استعماریت کا نتیجہ تھی، نہ کہ کسی ولولہ انگیز قیادت کی کوشش۔ یہ اصل میں استعماری طاقتوں کے سرمایہ دارانہ نظام میں نئی تبدیلی کی ابتدا تھی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد وہ ایک کے بعد ایک ملک کو بانٹتے اور نکلتے چلے گئے۔
خلیج بنگال سے یہ سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا؛ اس کی جڑیں مشرقی چینی سمندر تک جاتی ہیں…… جہاں سنگاپور، ملائشیا، فلپائن، کوریا، جاپان، چین، ہانگ کانگ اور درجنوں جزائر اس سامراجی جال میں پھنسے، بہ ظاہر آزاد ہوئے، مگر حقیقتاً سرمایہ داری کی زنجیروں میں جکڑے رہے۔ کچھ اقوام نے علم اور شعور کے ذریعے یہ دیواریں توڑ دیں۔ برلن کی دیوار گرائی گئی، یمن ایک ہوا، لیکن کوریا اور برصغیر آج بھی تقسیم کے زخم سہہ رہے ہیں۔
دنیا کی یہ غیر فطری تقسیم صرف علم، شعور اور آگہی سے ختم ہوسکتی ہے۔ ورنہ چاہے ایٹم بم بنالیں، جنگیں لڑلیں یا دریا روک لیں، فائدہ صرف استعمار کا ہے۔ ہمارے ہاں سب کچھ کہنا اور لکھنا ہی سب سے بڑا کرم سمجھا جاتا ہے، مگر آئینہ سامنے لانے کی جرات کوئی نہیں کرتا۔ تاریخ میں نفرت، روایات اور مذہب کو مخصوص مقاصد کے لیے گھول کر پیش کیا گیا۔ جغرافیہ، ماحولیات، سائنس، معیشت سب علم ہیں، لیکن ہم انھیں بھی مذہبی یا نسلی قالب میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں رواج یہ ہے کہ سائنس کو مسلمان کیا جائے، ریاست کو مسلمان کیا جائے، مگر فرد جسے درحقیقت مسلمان ہونا چاہیے، وہ اپنی اصلاح کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ خود ہی کہتے ہیں کہ جو برا ہمارے ساتھ ہوتا ہے، وہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے…… مگر کیا کبھی غور کیا کہ یہ برے اعمال ہیں کیا؟
یہ کرپشن میں دنیا میں دوسرا نمبر پانے کو کہتے ہیں۔ انصاف کی فراہمی میں 124ویں درجے پر ہونے کو کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شمار ہونے کو کہتے ہیں۔ یہ ملاوٹ اور دھوکا دہی میں اول آنے کو کہتے ہیں۔ جھوٹ کو کام یابی سمجھنے کو کہتے ہیں۔ تعلیم کے نام پر گھٹیا مواد پڑھانے کو کہتے ہیں۔ یہ نسلی امتیاز اور صنفی مساوات نہ ہونے کو کہتے ہیں۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اس پر مذہبی و سماجی مہر ثبت کرنے کو کہتے ہیں۔ یہ ماحولیاتی تباہی، گندگی اور بے حسی کو کہتے ہیں۔ یہ کم زور طبقات، خواتین اور اقلیتوں کو انسان نہ سمجھنے کو کہتے ہیں۔ یہ سفارش، اقربا پروری، کمیشن، غیبت اور جہالت کو کہتے ہیں۔
اور پھر ہم بڑی سادگی سے کہتے ہیں: ’’ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے!‘‘
بلاشبہ یہ درست ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اعمال کو عبادات سے جوڑ دیتے ہیں۔ دن میں روزہ رکھنے اور رات کو تہجد گزار ہونے کو نجات سمجھتے ہیں، مگر ساتھ ملاوٹ، دھوکا اور ناانصافی کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ شخص اس سے کروڑ درجہ بہتر ہے، جو عبادات میں کم زور ہو، مگر نہ ملاوٹ کرے، نہ جھوٹ بولے، نہ کسی کا نقصان کرے، نہ رشوت دے، نہ رشوت لے، نہ غیبت کرے اور نہ بے انصافی۔
یہی ’’حقوق العباد‘‘ ہیں، یہی انسانی حقوق ہیں، یہی معاشرتی اقدار ہیں…… لیکن جب یہ یقین کرلیا کہ عبادات سے گناہ دھل جاتے ہیں، تو پھر اصلاح کی گنجایش باقی نہیں رہتی۔ حالاں کہ عبادات کی قبولیت کی پہلی شرط ہے کہ رزق، نیت، جذبات اور اعمال سب حلال ہوں، ورنہ نماز ہو یا روزہ، سب محض عادت یا جبر بن جاتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ ایک خاص سمت میں ہانکا جا رہا ہے، مگر وہ سمت خیر کی نہیں، بل کہ نفس پرستی کی ہے۔ ہر طرف حیوانی جبلت غالب ہے، درندگی ہے اور انسانی صفت کہیں گم ہوچکی ہے۔
اور پھر ہم گلہ کرتے ہیں کہ حالات ہمارے اعمال کا نتیجہ ہیں۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










