ایران آج ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں اس کی تاریخ، اس کی جغرافیائی سیاست اور اس کی قومی شناخت ایک امتحان سے گزر رہی ہے۔
جون 2025ء کی 12 روزہ جنگ، جو اس نے اسرائیل کے ساتھ لڑی، اُس کے بعد امریکی فوجی مداخلت نے اسے ایک نئے چیلنج سے دوچار کیا۔ یہ جنگ ایران کے لیے ایک بڑا امتحان تھی۔
شام میں اسد حکومت کا خاتمہ ایران کے لیے سب سے بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ شام نہ صرف ایران کا واحد ریاستی اتحادی تھا، بل کہ اس کی ’’محور مقاوت‘‘ کا ایک اہم ستون بھی تھا، جو لبنان میں حزب اللہ کو ہتھیاروں کی ترسیل کا بنیادی راستہ فراہم کرتا تھا۔
اسد حکومت کے خاتمے نے ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کو شدید نقصان پہنچایا اور اس کی جغرافیائی رسائی کو بنیادی طور پر عراق اور یمن تک محدود کر دیا…… لیکن کیا یہ تنہائی ایران کی کم زوری کی علامت ہے، یا اس کی استقامت کی ایک نئی کہانی کا آغاز……؟
ایرانی قیادت اسے ایک عارضی دھچکے کے طور پر دیکھتی ہے اور اس کی تاریخ گواہ ہے کہ ایران نے ہمیشہ مشکلات سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا ہے ۔
ایران کا جوہری پروگرام اس کی خارجہ پالیسی اور عالمی ساکھ کا ایک اہم جزو رہا ہے۔ جون 2025ء کے حملوں کے بعد، جب امریکی صدر نے دعوا کیا کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ ایرانی حکام نے اسے محض پروپیگنڈا قرار دیا۔ ’’بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی‘‘ (IAEA) کی رپورٹس بھی اس امر کی تصدیق کرتی ہیں کہ ایران کے جوہری ڈھانچے کو نقصان ضرور پہنچا، لیکن اس کی بنیادی صلاحیت اب بھی برقرار ہے۔ ایران کے پاس تقریباً 400 کلوگرام 60 فی صد خالصیت والا افزودہ یورینیم موجود ہے، جو اگر مزید افزودہ کیا جائے، تو 9 جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہے۔ ’’نتانز‘‘، ’’فوردو‘‘ اور اصفہان کی تنصیبات کو نقصان پہنچا، لیکن ایران کی تکنیکی مہارت اور اس کے سائنس دانوں کی قابلیت اب بھی اسے بازسازی کی صلاحیت دیتی ہے۔ IAEA کے ڈائریکٹر رفائل گروسی نے خود تسلیم کیا کہ ایران چند مہینوں میں اپنی افزودگی کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرسکتا ہے۔
ایران کے نقطۂ نظر سے، یہ جوہری پروگرام اس کی خودمختاری اور قومی سلامتی کا ایک ناقابلِ سمجھوتا حصہ ہے۔ عالمی دباو اور پابندیوں کے باوجود، ایران اس پروگرام کو اپنی دفاعی حکمت عملی کا بنیادی ستون سمجھتا ہے اور اسے ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
عالمی سطح پر ایران کی سفارتی تنہائی کوئی نئی بات نہیں، لیکن حالیہ واقعات نے اسے مزید گہرا کر دیا ہے۔ روس اور چین، جو ایران کے روایتی اتحادی سمجھے جاتے ہیں…… روس، جو اپریل 2025ء میں ایران کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے پر دست خط کرچکا تھا، نے اسرائیلی حملوں کے بعد اپنی ترجیحات کو واضح کیا، جب اس کے صدر نے ایرانی قیادت سے رابطے سے پہلے اسرائیلی وزیرِاعظم سے بات کی۔ چین نے بھی اپنی محتاط سفارتی پوزیشن برقرار رکھی۔
یورپی طاقتوں کے ساتھ ایران کے تعلقات بھی کشیدہ ہیں، اگرچہ جولائی 2025ء میں "E3” (برطانیہ، فرانس اور جرمنی) کے ساتھ جوہری مذاکرات کی بہ حالی کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایران اس تنہائی کو عالمی سامراجی طاقتوں کی سازش کے طور پر دیکھتا ہے، جو اس کی خود مختاری کو دبانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ایرانی قیادت کا موقف ہے کہ یہ تنہائی اس کی استقامت کا امتحان ہے اور وہ اسے سفارتی ذرائع سے اپنی شرائط پر حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
معاشی طور پر، ایران کو شدید چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایرانی ریال کی قدر تاریخی کم زوری کی سطح پر پہنچ چکی ہے، جو امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایک ملین سے زیادہ پر تجارت کر رہا ہے۔ افراطِ زر کی شرح 43 فی صد سے تجاوز کرچکی ہے اور 2025ء میں اس کے 43.3 فی صد تک پہنچنے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ متوسط طبقہ معاشی دباو کا سب سے زیادہ شکار ہے، جس کی خریداری کی طاقت شدید متاثر ہوئی ہے۔ امریکی پابندیوں نے ایران کی معیشت کو گھٹنوں کے بل لانے کی کوشش کی ہے اور 2025ء کے لیے معاشی ترقی کی شرح صرف 0.3 فی صد رہنے کی توقع ہے، جو 2024ء کے 3.5 فی صد سے نمایاں طور پر کم ہے۔ اس کے باوجود، ایران نے اپنی معیشت کو گھریلو ٹیکسوں پر انحصار کرتے ہوئے چلانے کی کوشش کی ہے، جو اس کے موجودہ اخراجات کا 73 فی صد پورا کر رہے ہیں۔
ایرانی قیادت اس معاشی بحران کو ایک وقتی امتحان سمجھتی ہے اور اس کا دعوا ہے کہ وہ اپنی خودکفالت کی پالیسیوں کے ذریعے اس سے نکل آئے گی۔
ایران کا ’’محور مقاوت‘‘، جو اس کی علاقائی طاقت کا ایک اہم ستون تھا، حالیہ تنازعات میں شدید متاثر ہوا ہے۔ شام میں اسد حکومت کا خاتمہ، لبنان میں حزب اللہ کی کم زوری، غزہ میں حماس کی صلاحیتوں کا نقصان اور عراق میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشاؤں پر دباو نے اس نیٹ ورک کو کم زور کیا ہے…… لیکن یمن میں حوثی اب بھی ایران کے پراکسی نیٹ ورک کا ایک مضبوط حصہ ہیں، جو بحیرۂ احمر میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایران اسے اپنی اسٹریٹجک گہرائی کے طور پر دیکھتا ہے اور اس کا ماننا ہے کہ اس کے اتحادی اب بھی اس کی طاقت کا مظہر ہیں۔
عالمی تجزیہ کار ایران کے پراکسی ماڈل کی خامیوں کی بات کرتے ہیں، لیکن ایرانی نقطۂ نظر سے یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے، جو اسے بہ راہ راست جنگ سے بچاتی ہے اور اسے علاقائی اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔
فوجی طور پر، ایران کو جون 2025ء کے تنازع میں شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے بیلسٹک میزائل لانچرز کا دو تہائی حصہ تباہ ہوا، اس کی فضائی دفاعی صلاحیت کو شدید دھچکا لگا اور اس کے کلیدی فوجی راہ نما ہلاک ہوئے، لیکن ایران کا دعوا ہے کہ اس کی فوجی صلاحیت اب بھی برقرار ہے اور وہ اپنی دفاعی طاقت کو دوبارہ منظم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایرانی قیادت اسے ایک عارضی دھچکے کے طور پر پیش کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کی فوج اپنی قوم کے دفاع کے لیے ہر حال میں تیار ہے۔ مذاکراتی محاذ پر، ایران نے ہمیشہ اپنی خودمختاری کو ترجیح دی ہے۔ عمانی ثالثوں کے ذریعے امریکی مذاکرات معطل ہوچکے ہیں اور یورپی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کی بہ حالی کی کوشش کی جا رہی ہے…… لیکن ایران کا موقف واضح ہے کہ وہ کوئی بھی معاہدہ اپنی شرائط پر کرے گا اور وہ اپنی جوہری صلاحیت کو اپنی قومی سلامتی کے لیے ناگزیر سمجھتا ہے۔
ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے جوہری پالیسی میں تبدیلیوں کی بات کی ہے، لیکن اس کی تفصیلات واضح نہیں کیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ سفارتی حل کے لیے تیار ہے، لیکن وہ اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔
ایران کے لیے تین ممکنہ منظرنامے ہیں، یا تو وہ موجودہ تنہائی میں رہے گا، یا وہ سفارتی کوششوں سے دوبارہ عالمی نظام میں شامل ہوگا، یا پھر وہ مزید تصادم کی طرف جائے گا۔ ایرانی قیادت تیسرے منظرنامے سے بچنا چاہتی ہے، لیکن وہ اپنے اُصولوں سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
ایران کا موقف ہے کہ وہ ایک ایسی طاقت ہے جو اپنی جڑوں سے جُڑی ہوئی ہے…… اور اس کی قوم اپنی تاریخ سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










