پاکستان میں جمہوریت، مقتدرہ یا یوں کَہ لیں کہ چند نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکی ہے۔ وہ جیسے چاہیں نچالیتے ہیں۔ اس میں جتنا قصور نچانے والوں کا ہے، اُس سے زیادہ قصور اُن سیاسی عمائدین کا ہے، جو پاؤں میں گھنگرو باندھ کر طبلے کی تاپ پر ناچتے ہیں۔ مقتدرہ اور سیاسی مسخروں کے اس کھیل میں پاکستان اور پاکستانی عوام کو ہمیشہ نقصان اُٹھانا پڑا ہے اور اب بھی اُٹھا رہے ہیں۔
فروری 2024ء کے بعد شروع ہونے والے کھیل میں پاکستان تحریکِ انصاف کو عوامی مینڈیٹ کے باوجود ایوانِ اقتدار سے دور رکھا گیا۔ عمران خان اور تحریکِ انصاف کے مرکزی و صوبائی قائدین کے خلاف ملک کے کونے کونے میں مقدمات درج ہوئے اور اُنھیں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ جس راہ نما نے پریس کانفرنس کے ذریعے تحریکِ انصاف اور عمران خان سے لاتعلقی کا اعلان کیا، اُن کو شریکِ جرم ہونے کے باوجود معاف کر دیا گیا…… لیکن جنھوں نے ایسا نہ کیا، اُن پر زمین تنگ کر دی گئی۔
اب سوشل میڈیا پر بار بار یہ خبریں گردش کرتی رہتی ہیں کہ عمران خان سے فُلاں فُلاں شرائط منوانے پر بات ہو رہی ہے، لیکن عمران خان نے کسی بھی شرط پر جیل سے باہر آنے سے انکار کر دیا ہے۔
گذشتہ دنوں سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں عمران خان کو معافی مانگنے کا مشورہ دیا اور حوالہ دیا کہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے اُنھیں کہا ہے کہ اگر عمران خان خلوصِ دل سے معافی مانگ لیں، تو اُنھیں رہائی مل سکتی ہے۔
سہیل وڑائچ کا مشورہ ایسے محسوس ہوا، جیسے وہ عمران خان سے کَہ رہے ہوں کہ 9 مئی کا ناقابلِ معافی جرم تسلیم کر لیں…… مگر یہ ممکن نہیں۔ عمران خان اور تحریکِ انصاف کے راہ نماؤں نے یہ مشورہ مسترد کر دیا۔
بعد ازاں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بحث کے بعد آئی ایس پی آر نے وضاحتی بیان میں تردید کرتے ہوئے کہا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے سہیل وڑائچ سے ایسی کوئی بات نہیں کی، جب کہ سہیل وڑائچ نے کہا کہ وہ قرآن پر حلف اٹھانے کو تیار ہیں کہ جنرل عاصم منیر نے اُنھیں یہی کہا تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق اگر یہ خبر جھوٹی ہے، تو سہیل وڑائچ کے خلاف ’’پیکا ایکٹ‘‘ کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہیے، جیسا کہ دیگر صحافیوں کے خلاف درج ہو رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور آئی ایس پی آر اس خبر پر کیا ایکشن لیتے ہیں؟
اصل سوال یہ ہے کہ سہیل وڑائچ نے یہ مشورہ کس کے کہنے پر دیا تھا، یا یہ اُن کی اپنی خواہش ہے؟ بہ ہرحال میرا ماننا ہے کہ عمران خان کو معافی، انکار یا مصالحت کا کوئی فارمولا فائدہ نہیں دے سکتا۔ کیوں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ گواہی دیتی ہے کہ انکار، معافی یا مصالحت…… کسی نے بھی کسی سیاست دان کو استحکام نہیں دیا۔
پاکستانی سیاست میں انکار کسی کے کام آیا، نہ معافی سے سہولت ملی اور نہ مصالحت ہی فائدہ مند ثابت ہوئی۔ تاریخ میں صرف ’’قبولیت‘‘ کام آئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انکار کیا اور تاریخ میں زندہ رہنے کو ترجیح دی، لیکن جنرل ضیاء الحق نے کعبہ شریف میں وعدہ کرنے کے باوجود بھٹو کو پھانسی دے دی۔
بے نظیر بھٹو نے مصالحت کا راستہ اپنایا اور فوج کو ’’تمغائے جمہوریت‘‘ دیا، لیکن یہ بھی اُن کے کام نہ آیا۔ 1986ء میں اُن کی وطن واپسی پر لاہور میں شان دار استقبال ہوا۔ 1988ء کے انتخابات میں وہ اقتدار میں آئیں، مگر مصالحت نے اُنھیں غلام اسحاق خان کو صدر ماننے اور غیر جماعتی افراد کو کابینہ میں شامل کرنے پر مجبور کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صرف 18 ماہ بعد اُنھیں اقتدار سے نکال دیا گیا۔
1990ء کے انتخابات میں آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے نواز شریف وزیرِ اعظم بنے، مگر 1993ء میں مقتدرہ کے ہاتھوں نواز شریف اور غلام اسحاق خان دونوں کو گھر جانا پڑا۔ دوبارہ اقتدار ملنے پر بھی بے نظیر بھٹو مشکلات سے نہ بچ سکیں۔ نواز شریف کو 1997ء میں دو تہائی اکثریت ملی، لیکن وہ بھی کارگر ثابت نہ ہوئی اور 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔
2006ء میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے یہ تسلیم کیا کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے ہیں۔ لہٰذا اُنھوں نے ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پر دستخط کیے، مگر مقتدرہ نے اس کے جواب میں اپنا کھیل شروع کیا اور عمران خان کو سیاست میں نمایاں کیا، لیکن اُنھیں بھی کبھی کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ 2002ء کے انتخابات میں عمران خان کو صرف ایک نشست ملی اور اقتدار مسلم لیگ ق کے کندھوں پر جا بیٹھا۔
2007ء میں بے نظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے درمیان معاہدہ ہوا، لیکن یہ مصالحت بھی بے نظیر کو نہ بچا سکی اور وہ دہشت گردی کا شکار ہوکر شہید کردی گئیں۔ میثاقِ جمہوریت کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں نے اپنی حکومتوں کی مدت پوری کی، لیکن یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو بالآخر اقتدار سے نکال دیا گیا۔
2018ء میں عمران خان کو اقتدار دیا گیا، لیکن اُن کا مصالحتی اور انکاری رویہ بھی اُن کے کام نہ آیا اور بالآخر وہ بھی اقتدار سے الگ کر دیے گئے۔
اَب اگر عمران خان مصالحت کریں، انکار کریں یا معافی مانگ لیں، تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیوں کہ مقتدرہ کے ہاں ’’قبولیت‘‘ کام آتی ہے ، ’’مقبولیت‘‘ نہیں۔ تاریخ میں یہ بار بار ثابت ہوا ہے کہ مقبولیت کے باوجود سیاسی راہ نما انجام کو پہنچے۔ عمران خان کے ساتھ بھی کچھ مختلف ہوگا یا نہیں…… یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










