سیلاب کی تاریکی میں مدارس کی روشنی

Blogger Engineer Miraj Ahmad

حالیہ تباہ کن سیلاب نے خیبر پختونخوا کی حسین وادیوں سوات اور بونیر کو ایسی کڑی آزمایش سے دوچار کر دیا ہے، جس کی مثال برسوں میں مشکل سے ملے گی۔ یہ وہ خطے ہیں جو کبھی اپنی دل کش وادیوں، بہتے جھرنوں اور سرسبز کھیتوں کے سبب جنت نظیر کہلاتے تھے، مگر اب ان کی وادیوں میں ملبے کے ڈھیر، اُجڑے گھر اور سوگوار چہرے دکھائی دیتے ہیں۔ پانی کے بے رحم ریلوں نے بستیاں مٹی میں ملا دیں، فصلوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا اور ہزاروں خاندانوں کو بے یار و مددگار کرکے کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ انسان تو انسان، مال مویشی تک بہہ گئے اور کئی بستیوں کے چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ گئے۔
اس سانحے نے جہاں انسانی ہمت کو آزمایا، وہیں اداروں اور طبقات کی حقیقت بھی عیاں کر دی۔ حکومتی ادارے اپنی روایتی سستی اور وسائل کی کمی کے باعث اکثر مقامات پر غائب دکھائی دیے۔ البتہ فلاحی تنظیمیں اور مختلف طبقات اپنی بساط کے مطابق سرگرمِ عمل رہے۔ انھی میں ایک طبقہ وہ ہے جسے اکثر تنقید اور تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن عملی میدان میں وہ ہر بار اپنی خدمات اور قربانیوں کے ذریعے قوم کے دل جیت لیتا ہے۔ یہ طبقہ ہے دینی مدارس، اُن کے طلبہ اور علمائے کرام کا۔
مدارس نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ وہ محض درس و تدریس کے مراکز نہیں، بل کہ معاشرتی فلاح و بہبود کے ایسے قلعے ہیں، جو ہر کڑے وقت میں قوم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ سوات، بونیر اور ملک کے دیگر حصوں میں متعدد مدارس نے اپنے دروازے متاثرہ خاندانوں کے لیے کھول دیے۔ اُن مدارس میں اجڑے ہوئے خاندانوں کو عارضی رہایش فراہم کی گئی، کھانے پینے کے لنگر جاری کیے گئے اور ابتدائی طبی سہولیات کا انتظام کیا گیا۔ جو مدارس خود محدود وسائل کے باوجود چل رہے تھے، نے بھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر خدمت کی۔
مدارس کے طلبہ، جنھیں اکثر کتب و دروس تک محدود سمجھا جاتا ہے، عملی خدمت کے میدان میں اُتر کر ایک الگ ہی منظر پیش کر رہے تھے۔ کہیں وہ سامانِ خور و نوش کی بوریاں اُٹھائے پسینے میں شرابور تھے، کہیں ملبہ ہٹا کر زندہ بچ جانے والوں تک رسائی ممکن بنا رہے تھے، تو کہیں بیماروں اور زخمیوں کے پاس بیٹھ کر تیمارداری کر رہے تھے۔ بعض نے تو اپنی جانوں کو داو پر لگا کر طوفانی پانیوں میں پھنسے لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچایا۔ یہ سب کچھ بغیر کسی تشہیر، میڈیا کوریج یا حکومتی سرپرستی کے کیا گیا۔
علمائے کرام نے بھی اپنی ذمے داریوں کو نبھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سوات میں مولانا سید قمر صاحب اور بونیر میں مفتی فضل غفور صاحب کی قیادت میں علما نے نہ صرف عوام کو صبر و حوصلے کی تلقین کی، بل کہ اپنے خطبات اور خطباتِ جمعہ کے ذریعے اہل خیر کو امداد کے لیے متحرک کیا۔ اُن کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کئی لوگ مالی اور عملی طور پر خدمت کے میدان میں اُتر آئے۔ مزید یہ کہ علما خود متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر مظلوم و بے گھر خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ اُن کی یہ موجودگی محض رسمی نہیں تھی، بل کہ متاثرین کے لیے ایک سہارا اور ڈھارس تھی۔ اُن کے الفاظ اور موجودگی نے اُن لوگوں کے دلوں کو یقین دلایا کہ وہ تنہا نہیں، بل کہ پوری ملت اُن کے دکھ درد میں شریک ہے۔
مدارس اور علما کا کردار صرف وقتی ریلیف اور فوری امداد تک محدود نہیں رہا۔ اُنھوں نے بہ حالی کے طویل مرحلے میں بھی اپنا کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ گھروں کی دوبارہ تعمیر، بچوں کی تعلیم کا تسلسل برقرار رکھنا، یتیموں کی کفالت اور چھوٹے کاروباروں کو دوبارہ کھڑا کرنے جیسے اہم منصوبوں پر غور و فکر جاری ہے۔ اس سے یہ پیغام ملا کہ مدارس صرف حادثے کے دنوں تک ساتھ نہیں، بل کہ مستقبل کی تعمیر میں بھی کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
یہ سب خدمات اس حقیقت کی غمازی کرتی ہیں کہ مدارس محض مذہبی ادارے نہیں، بل کہ معاشرتی زندگی کے دھڑکتے دل ہیں۔ وہ دین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت کو بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اگر آج سیلاب زدگان اپنے دکھوں میں تنہا نہیں، تو اس کا سہرا ان مدارس اور ان کے طلبہ کے اخلاص، قربانی اور مسلسل خدمت کو جاتا ہے۔ یہ آزمایش ایک آئینہ ہے جس نے ہمارے معاشرے کو دکھایا کہ اصل خدمت گم نام سپاہی کرتے ہیں، جنھیں نہ تو سرکاری پروٹوکول میسر ہوتا ہے اور نہ وہ ٹی وی چینلوں کی شہ سرخیوں کا حصہ ہی بنتے ہیں، لیکن جب تاریخ لکھی جائے گی، تو ان مدارس کے خلوص بھرے کردار کو سنہرے حروف سے یاد کیا جائے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے