جاپان میں زلزلے اب معمول بن چکے ہیں…… اور انھیں معمول بنانا جاپانی قوم کی صلاحیتوں کا منھ بولتا ثبوت ہے۔
زلزلے تو باقی دنیا میں بھی آتے ہیں۔ پاکستان میں ماضیِ قریب کا بالاکوٹ زلزلہ آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔
ہمارے ہاں زلزلہ آجائے، تو کہرام مچ جاتا ہے، لیکن متاثرین کی مکمل بہ حالی سالوں بعد بھی ممکن نہیں ہوپاتی۔ اس کے برعکس جاپان میں زلزلے کثرت سے اور وقفے وقفے سے آتے ہیں، مگر وہاں نہ چندے اکٹھے کیے جاتے ہیں، نہ نوحے پڑھے جاتے ہیں اور نہ زلزلوں کو محض قدرتی آفت قرار دے کر ذمے داریوں سے جان ہی چھڑائی جاتی ہے۔
جاپان میں زلزلوں سے بچاو کے لیے تمام ممکنہ سائنسی اقدامات کیے گئے ہیں۔ عمارتوں کو زلزلہ پروف اور زلزلہ مزاحم بنایا جاتا ہے۔ گھروں، دفاتر اور دیگر تعمیرات میں اس امر کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ کتنے درجے تک زلزلے کو برداشت کرسکیں۔
اس طرح قبل از وقت اطلاع (ارلی وارننگ) کا نظام قائم کیا گیا ہے۔ اگرچہ زلزلے کے بارے میں کئی گھنٹے پہلے اطلاع دینا ممکن نہیں، تاہم فوری الرٹ ضرور جاری کیا جاتا ہے۔
نیز ملک میں شیلٹرز (پناہ گاہیں) بھی موجود ہیں، جہاں شدید زلزلے کی صورت میں لوگ محفوظ ہوسکتے ہیں۔ سب سے اہم کام یہ ہے کہ قوم کو تربیت دی گئی ہے کہ زلزلے کے وقت افراتفری نہ پھیلائیں…… بل کہ مہذب انداز میں خود کو محفوظ بنانے کی کوشش کریں۔
یہی وجہ ہے کہ جاپان میں روزانہ یا ایک دن میں کئی بار زلزلے آئیں، مگر کوئی ہنگامہ نہیں ہوتا۔
تاہم 2011ء میں جاپان کو ایک اور بڑے چیلنج کا سامنا ہوا، جب بدترین سونامی نے ساحلی علاقوں کو تباہ کردیا…… تب حکومت نے نہ اسے صرف قدرتی آفت کَہ کر جان چھڑائی، نہ چندے کے بکسوں سے متاثرین کی مدد کے نام پر خوردبرد ہی کیا…… بل کہ فوری طور پر اعلا سطحی اجلاس بلایا گیا اور آیندہ سونامی سے بچاو کے عملی اقدامات کا فیصلہ کیا گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ساحل پر ایک طویل ’’سونامی ریزسٹنس‘‘ دیوار تعمیر کی گئی۔ کنکریٹ سے بنی یہ دیوار 395 کلومیٹر طویل اور کئی مقامات پر 14 میٹر سے بھی زیادہ بلند ہے، جس کی بنیادیں زمین میں 25 کلومیٹر گہرائی تک رکھی گئی ہیں۔
مذکورہ دیوار کے ساتھ 90 لاکھ سے زیادہ درخت بھی لگائے گئے، تاکہ ساحل کو مزید مضبوط تحفظ دیا جاسکے۔ اب اگر سونامی بھی آئے، تو نقصان 2011ء جیسا نہیں ہوگا۔ یہی کہلاتی ہے حکومت کی عملی ترجیحات اور آفات سے بچاو کی حکمتِ عملی۔
اس کے برعکس ہم ہیں۔ ہر سال یا دو سال بعد سیلاب آتا ہے اور بدترین تباہی کا ثبوت چھوڑ جاتا ہے۔ درجنوں جانیں ضائع ہوجاتی ہیں، سیکڑوں زخمی ہوتے ہیں، گھر، عمارتیں، پل اور سڑکیں بہہ جاتی ہیں۔ چندے اکٹھے کرنے والے کچھ لوگ اس موقع پر بھی مال دار بن جاتے ہیں۔ چند دن شور و غوغا رہتا ہے، پھر سب کچھ ختم…… اور لوگ دوبارہ انھی غلطیوں پر اتر آتے ہیں۔
پانی کے قدرتی راستے بند کرکے تعمیرات کرنا، جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور زرخیز زمینوں پر غیر ضروری ہاؤسنگ سوسائٹیز کھڑی کرنا انھی غلطیوں میں شامل ہیں۔
جب آفات کو خود دعوت دی جاتی ہے، تو نہ حکومت جاگتی ہے اور نہ عوام کے کانوں پر جوں ہی رینگتی ہے…… لیکن جیسے ہی سیلاب آتا ہے، پھر وہی واویلا اور آہ و فغاں شروع ہو جاتی ہے ۔
اس بار بھی کہانی وہی ہے، جو 2022ء کے سیلاب میں تھی…… فرق صرف شدت کا ہے۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر قدرتی آفت کو ’’خدائی آزمایش‘‘ کَہ کر اپنی ذمے داریوں سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ یہ کوئی طریقہ نہیں۔ اگر آج بھی ہم جاپان کی طرح عملی اقدامات شروع نہیں کرتے، تو یاد رہے کہ مستقبل میں ہمیں اس سے بھی زیادہ خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ رفاہی کاموں، چندوں اور اظہارِ افسوس کے ساتھ ساتھ پیشگی منصوبہ بندی اور عملی اقدامات کے لیے بھی وقت نکالا جائے، تاکہ آنے والے کل کو محفوظ بنایا جاسکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










