فطرت اگر مٹانے پر آئے، تو ہزاروں برس کی محنت اور ترقی کو لمحے کے ہزارویں حصے میں زمین بوس کر دے، لیکن یہ اُس کا ظرف ہے کہ عموماً خاموش رہتی ہے۔
فطرت نے انسان کو اپنی آغوش میں جگہ دی، اپنے گلے لگایا، اپنی خوب صورتی کے تمام رنگ اس پر آشکار کیے اور اپنے سریلے نغمے بھی سنائے…… لیکن اپنی ’’فطرت‘‘ سے مجبور انسان نے جواباً ہمیشہ کی طرح فطرت کے سینے پر وار کیے اور پے در پے زخم لگائے۔
انسان ازل سے یہی تو کرتا آیا ہے۔ یہ کائنات، یہ زمین، یہ فطرت ہماری پرکھوں کے پاس ایک امانت تھی، مگر اُنھوں نے اس میں خیانت کی اور اس کا خیال نہ رکھا۔ اب کچھ خیانت ہم کر رہے ہیں اور خدا جانے آنے والی نسلیں کیا کریں گی…… یا شاید اُنھیں سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملے اور فطرت ہمارا سارا غصہ اُنھی پر اُتار کر ہماری کوتاہیوں کا حساب لے۔
پچھلی دو صدیوں میں انسان نے فطرت کے لحاظ، مروت اور تمیز کی تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ وہ فطرت کے چہرے پر ایسے تھپڑ برسا رہا ہے کہ اسے سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ وہ کسی خاموش، گم صم، گوشہ نشین بوڑھے دیوتا کی طرح سب سہتا جاتا ہے…… مگر برداشت کب تک؟
ایک وقت آتا ہے کہ نیوٹن کے تیسرے قانون کے مطابق فطرت حرکت میں آتی ہے، اور اپنا ردِعمل دکھاتی ہے۔ یہ ردِ عمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ انسانوں اور مکانوں، درختوں اور جانوروں، معصوموں اور گناہ گاروں سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور کسی کو پلک جھپکنے کا موقع بھی نہیں دیتا۔ وہ سب کچھ تاخیر کے بغیر مٹا دیتی ہے ۔
ہم تیسری دنیا کے زوال پذیر ممالک ان آفات سے دوچار ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رکھتے۔ ہمارے پاس نہ آفت کی پیشگی خبر ہوتی ہے، نہ اس سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ اور نہ بعد از آفت صورتِ حال کو سنبھالنے کا کوئی طریقہ کار۔
بہ قول احمد مشتاقؔ
یہ لوگ ٹوٹی ہوئی کشتیوں میں سوتے ہیں
مرے مکان سے دریا دکھائی دیتا ہے
ہم بس ٹوٹی ہوئی کشتیوں کے مسافر ہیں، جو لہروں کے رحم و کرم پر بہتے رہتے ہیں۔ ہر بار بے بسی، بے چارگی اور ناامیدی ہمارا مقدر بنتی ہے اور ہم اسے گلے لگا لیتے ہیں۔ کبھی کبھار سب کچھ خدا کے کھاتے میں ڈال کر اپنے احساسِ جرم کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاید ہماری بربادی میں خدا کی کوئی مصلحت ہو…… لیکن خدا کو انسانی بربادیوں سے کوئی دل چسپی نہیں، اور نہ وہ کسی کو مجبور کرتا ہے کہ فطرت کو برباد کرے۔
بس یہ انسان ہی ہے جو پہاڑوں کا پیٹ چاک کرتا ہے، دریاؤں کا راستہ روکتا ہے، جنگلوں کو اُجاڑتا ہے اور دو پیسوں کی خاطر فطرت سے اُس کا حسن، اُس کی جوانی اور اس کے رنگ چھین کر اسے چہرہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑتا۔
یہ سب ہمارا اپنا کیا دھرا ہے، مگر ہم ماننے کو تیار نہیں کہ یہ سب "Cause and Effect”کے قانون کے تحت ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نیں کہ ہماری بربادی کی اصل وجہ فطرت سے دشمنی ہے۔ دشمنی کا نتیجہ یہ نکلا کہ فطرت نے بھی ہم سے دشمنی نبھائی…… اور دشمن اپنے دشمن پر کبھی رحم نہیں کھاتا۔ نتیجتاً کبھی فطرت تو کبھی ہم، دونوں ہی سہتے رہیں گے۔
بہتر یہی ہے کہ جو کچھ فطرت کا ہے، اُسے واپس لوٹا دیا جائے اور اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں۔ وگرنہ آنے والے وقت میں شاید ہی فطرت ہماری نسلوں کو مہربان ماں کی طرح اپنی گود میں جگہ دے، اُنھیں لوریاں سنائے اور اپنی ممتا نچھاور کرے۔ خدا کرے ہم فطرت کے سچے امین بن جائیں، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










