گلوبل وارمنگ، کلاؤڈ برسٹ اور ہماری غیر سنجیدگی

Blogger Noor Muhammad

گذشتہ چند سالوں میں پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان تبدیلیوں نے جہاں معمول کی بارشوں، درجۂ حرارت اور موسموں کے انداز کو متاثر کیا ہے، وہیں ایسی قدرتی آفات کو بھی جنم دیا ہے، جن کا پہلے کبھی اتنا مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا۔
مذکورہ آفات میں ایک ’’بادل پھٹنے‘‘ (Cloudburst) کا واقعہ بھی شامل ہے، جو اب ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ یہ مظہر بہ ظاہر قدرتی ہے، مگر جب اس کی گہرائی میں جاکر وجوہات کا جائزہ لیا جائے، تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس کے پیچھے ہمارے اپنے اعمال، نااہلیاں اور بے احتیاطیاں چھپی ہوئی ہیں۔
بادل پھٹنے کا عمل کسی بھی علاقے میں اُس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے، جب فضا میں نمی کی مقدار بہت زیادہ ہوجائے اور بادل اتنی شدت سے برسیں کہ زمین اتنی بڑی مقدار میں پانی جذب کرنے سے قاصر ہو جائے۔ یہ بارش اتنی تیز ہوتی ہے کہ صرف چند منٹوں میں گھنٹوں یا دنوں کے برابر پانی زمین پر برس جاتا ہے، جو ندی نالوں، سڑکوں اور بستیوں میں سیلابی ریلوں کی صورت میں تباہی پھیلاتا ہے۔
پہاڑی علاقوں میں یہ مظہر مزید خطرناک شکل اختیار کرتا ہے، جہاں پانی کی رفتار زیادہ ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف ایک قدرتی آفت ہے…… یا اس کے پیچھے ہماری غیر سنجیدگی، ماحول دشمن سرگرمیاں اور ترقی کے نام پر تباہی کی طرف بڑھتے اقدامات کارفرما ہیں؟
سچ تو یہ ہے کہ بادلوں کا پھٹنا اب محض ایک قدرتی مظہر نہیں رہا، بل کہ اس کی شدت اور تکرار انسانی غلطیوں کا کھلا نتیجہ ہے۔ آج ہم نے جنگلات کی بے دریغ کٹائی کو معمول بنا لیا ہے۔ وہ درخت جو برسوں تک پانی کو زمین میں جذب کرنے ، ہوا کو صاف رکھنے اور موسم کے توازن کو قائم رکھنے کا کام کرتے تھے، آج وہ ہمارے لالچ اور ترقی کی دوڑ کی نذر ہوچکے ہیں۔ جنگلات ختم ہونے سے نہ صرف زمین کی آبی گنجایش متاثر ہوئی ہے، بل کہ زمینی کٹاو اور موسمی شدت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ندی نالوں اور دریاؤں کی قدرتی گزرگاہوں پر بے ہنگم اور غیر قانونی تعمیرات نے مزید مسائل کو جنم دیا ہے۔ پانی جب اپنا راستہ نہ پائے، تو وہ اپنے لیے راستہ خود بناتا ہے، چاہے وہ راستہ کسی بستی سے گزرے یا کسی شہر کے بیچوں بیچ۔ ہم نے قدرت کے نظام میں مداخلت کی، اور آج قدرت ہمیں اسی کی قیمت چکا رہی ہے۔
عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ یعنی ’’گلوبل وارمنگ‘‘ ایک اور سنگین مسئلہ ہے، جس کی جانب ہماری توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ زمین کا درجۂ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے، برف پگھل رہی ہے، نمی کا توازن بگڑ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں فضا میں موجود بخارات جب اچانک خارج ہوتے ہیں، تو وہ بادل بن کر ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں اور شدت کے ساتھ برس پڑتے ہیں۔
یہی ’’گلوبل وارمنگ‘‘ آج پوری دنیا کو متاثر کر رہی ہے، مگر پاکستان یا بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک اس کا سب سے بڑا شکار ہیں۔ کیوں کہ ان کے پاس وسائل ہیں، نہ منصوبہ بندی اور نہ ایمرجنسی کے وقت کی کارکردگی ہی ہے۔ ایسے میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف ایک مضبوط، سائنسی بنیاد پر مبنی حکمتِ عملی تشکیل دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ خطرے کے شکار علاقوں میں جدید موسمیاتی ریڈار اور وارننگ سسٹم نصب کرے، تاکہ بادل پھٹنے سے پہلے بروقت آگاہی دی جاسکے۔ مقامی انتظامیہ کو ریسکیو اداروں کی تربیت اور ساز و سامان کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے، تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں فوری اور موثر کارروائی ممکن ہو۔
تاہم، صرف حکومت ہی پر سارا بوجھ ڈال دینا مناسب نہیں۔ عوام کو بھی اپنی ذمے داریاں سمجھنی ہوں گی۔ ہمیں شجرکاری کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔ دریاؤں، نالوں اور برساتی راستوں میں گندگی اور رکاوٹ پیدا کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ تعمیرات کرتے وقت ماحول اور قدرتی گزرگاہوں کا لحاظ رکھنا ہو گا…… اور سب سے اہم بات، ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ ماحولیاتی شعور کو فروغ دینا ہوگا، اسکولوں، کالجوں اور میڈیا کے ذریعے عام فرد تک یہ پیغام پہنچانا ہوگا کہ فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا انجام ہمیشہ تباہی کی صورت میں نکلتا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، ادارے اور عوام سب مل کر ایک جامع حکمت عملی ترتیب دیں۔ قانون سازی سے لے کر عملی اقدامات تک ہر سطح پر یک سوئی اور سنجیدگی دکھائی جائے۔ صرف کاغذی منصوبے یا وقتی امداد سے ہم ان آفات پر قابو نہیں پاسکتے۔ یہ ایک جاری عمل ہے جس کے لیے طویل المدتی پالیسی، مسلسل عمل اور سب کی مشترکہ کاوش ضروری ہے۔
قارئین! آخر میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہم نے اَب بھی آنکھیں نہ کھولیں، تو آیندہ برسوں میں بادل صرف پھٹیں نہیں گے، بل کہ وہ انسانی غفلتوں کے خلاف طوفان کی صورت بھی اختیار کریں گے۔ سو ہمیں بہ ہر صورت فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم فطرت کے محافظ بننا چاہتے ہیں، یا اس کے انتقام کا نشانہ بننا چاہتے ہیں؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے