’’جیف بیزوس‘‘ (Jeff Bezos) کی میٹنگ میں ایک کرسی ہمیشہ خالی رہتی ہے۔ نہ کوئی نیم پلیٹ، نہ کوئی فائل، نہ کوئی انسان…… صرف ایک خالی کرسی۔
لیکن یہ سب سے اہم کرسی ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ کسٹمر کی کرسی ہوتی ہے ۔ ہر فیصلہ، ہر بحث، ہر منصوبہ اس خالی کرسی کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔
یہ وہ جادوئی کرسی ہے، جو بولتی نہیں، لیکن سب کچھ کَہ جاتی ہے۔خالی کرسی کااصل فلسفہ یہ ہے کہ جب کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے، تو اس خالی کرسی کی آواز سنی جاتی ہے۔ ’’کیا یہ فیصلہ ہمارے کسٹمر کے فائدے میں ہے؟‘‘، ’’کیا اس سے اُس کی زندگی آسان ہوگی؟‘‘، ’’کیا وہ خوش ہوگا یا پریشان؟‘‘
یہ وہ سوالات ہیں جو ہر اجلاس میں پوچھے جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ فیصلہ اُن لوگوں کے حق میں کیا جاتا ہے، جو کمرے میں موجود نہیں، لیکن اصل میں سب سے زیادہ اہم ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ آج ’’ایمازون‘‘ (Amazon) صرف آن لائن شاپنگ کی کمپنی نہیں رہی، بل کہ دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن گئی ہے۔
’’کلاؤڈ کمپیوٹنگ‘‘ سے لے کر مصنوعی ذہانت (اے آئی) تک، کتابوں سے لے کر خلائی سفر تک……ہر شعبے میں کام یاب۔ کیوں کہ جب آپ کسٹمر کو اپنے ہر فیصلے کا مرکز بنا دیتے ہیں، تو کام یابی خود بہ خود آپ کے قدم چومنے آتی ہے۔
یہ صرف کاروباری حکمت عملی نہیں، بل کہ انسانی فطرت کا بنیادی اُصول ہے……جو دوسروں کے فائدے کے لیے کام کرتا ہے، خدا اُس کے فائدے کا خیال رکھتا ہے۔
دوسری طرف ہمارے اداروں میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے لیے فیصلے کرتے ہیں، اپنی سہولت کے لیے منصوبے بناتے ہیں اور اپنی مرضی سے ترجیحات طے کرتے ہیں۔ اصل فائدہ اٹھانے والا، اصل متاثر ہونے والا، اصل استعمال کرنے والا ……اُس کا کوئی نمایندہ میٹنگ میں موجود نہیں ہوتا۔ یہ خالی کرسی کا فلسفہ اس خلا کو ختم کرنے کا انقلابی طریقہ ہے۔
قارئین! گھر سے شروع کرتے ہیں…… کیا آپ نے کبھی اپنے گھر کی فیملی میٹنگ میں بچوں کی خالی کرسی رکھی ہے؟ جب والدین یہ طے کر رہے ہوتے ہیں کہ بچے نے کیا پڑھنا ہے، کون سا اسکول بہتر ہے،کہاں رشتہ کرنا، تو بچوں کی رائے کہاں ہوتی ہے ؟
امی کہتی ہیں: ’’بچے کیا جانیں؟‘‘، ابا کہتے ہیں: ’’ہم جانتے ہیں کہ کیا بہتر ہے!‘‘ لیکن اگر ایک خالی کرسی رکھ کر ہر فیصلہ اس حوالے سے کیا جائے کہ بچے کو کیسا محسوس ہوگا؟ تو شاید گھر کا ماحول ہی بدل جائے۔
چالیار مدرسہ کا حالیہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ بچے کی رائے کو اہمیت دی جاتی اور اُس کا یقین کیا جاتا، تو آج شاید نتیجہ کچھ اور ہوتا۔
دفتر میں تو یہ سب سے زیادہ ضروری ہے۔ بورڈ میٹنگ میں شیئر ہولڈرز بیٹھے ہیں، مینجمنٹ موجود ہے، اکاؤنٹینٹ اپنی فائلیں لے کر آیا ہے، لیکن کسٹمر کہاں ہے ؟ وہ شخص جو صبح آٹھ بجے دفتر آتا ہے کام کرانے، وہ عورت جو گھنٹوں انتظار کرتی ہے اپنی فائل کے لیے، وہ بزرگ جو سیڑھیاں چڑھ کر تیسری منزل آتا ہے…… کیا ان کی آواز کوئی سنتا ہے؟ اگر ہر میٹنگ میں ایک خالی کرسی رکھی جائے اور کہا جائے کہ ’’یہ ہمارے کسٹمر کی کرسی ہے!‘‘، تو شاید فیصلے زمین پر اُترنا شروع ہو جائیں۔
اسکول میں پرنسپل صاحب اور اساتذہ کی میٹنگ ہو رہی ہے۔ نئے نصاب کا فیصلہ ہو رہا ہے، تعلیمی سال کامنصوبہ طے ہو رہا ہے، امتحان کا نظام بدلا جا رہا ہے…… لیکن کیا کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ کلاس میں بیٹھا وہ بچہ کیا محسوس کرے گا جویہاں تقدیر بدلنے آیا ہے؟ کیا کوئی یہ پوچھ رہا ہے کہ وہ والدین کیا کریں گے، جن پر اضافی بوجھ لاد دیا جائے گا؟
ہسپتال میں ایڈمن میٹنگ ہو رہی ہے ۔ ڈاکٹرز کی فیس طے ہو رہی ہے، ٹیسٹ کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں، سہولیات کے نئے ریٹ لگائے جا رہے ہیں…… لیکن کیا کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ کہ وہ ماں کیا کرے گی، جو اپنا زیور بیچ کر بچے کا علاج کرانے آئی ہے؟
بلدیاتی کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے۔ کون سا پارک بنانا ہے، کون سی سڑک کی مرمت کرنی ہے ، کہاں نالی صاف کرنی ہے؟ یہ سب طے ہو رہا ہے…… لیکن کیا کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ وہ خاتون کیا کرے گی، جو روزانہ کیچڑ میں چل کر بازار جاتی ہے؟
کیا کوئی یہ پوچھ رہا ہے کہ وہ بچے کیا کریں گے، جن کے لیے کھیل کا کوئی میدان نہیں؟ سیاسی جماعت کی کور کمیٹی میں اہم فیصلے ہو رہے ہیں۔ کون سا الیکشن لڑنا ہے، کسے ٹکٹ دینا ہے، کیا وعدے کرنے ہیں؟ یہ سب طے ہو رہا ہے…… لیکن کیا کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ وہ ووٹر کیا چاہتا ہے، جو صبح 5 بجے کھیت میں کام پر جاتا ہے؟ کیا کوئی یہ پوچھ رہا ہے کہ وہ نوجوان کیا کرے گا جس کے پاس نوکری ہے، نہ کاروبار……؟
کارپوریٹ کمپنی کی بورڈ میٹنگ میں منافع کے حساب لگائے جا رہے ہیں، اخراجات کم کرنے کے طریقے سوچے جا رہے ہیں، نئی مارکیٹ میں داخل ہونے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں…… لیکن کیا کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ وہ ملازم کیا کرے گا، جسے ڈاؤن سائزنگ کے نام پر نکالا جانے والا ہے؟ کیا کوئی یہ پوچھ رہا ہے کہ وہ کسٹمر کیا کرے گا، جسے کم کوالٹی کا سامان ملے گا؟
پارلیمنٹ میں قوانین بنائے جا رہے ہیں، بجٹ پاس کیا جا رہا ہے، ٹیکس لگائے جا رہے ہیں…… لیکن کیا کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ وہ کسان کیا کرے گا جس کی فصل برباد ہو گئی؟ کیا کوئی یہ پوچھ رہا ہے کہ وہ مزدور کیا کرے گا جس کی روزانہ کی اجرت بہ مشکل گھر چلاتی ہے؟
صرف ایک خالی کرسی کے فلسفے پر مکمل عمل درآمد ہو، تو شاید تعلیمی فیصلے زیادہ حقیقت پسندانہ اور طبی خدمات زیادہ انسان دوست ہوں۔ پھر شہری خدمات زیادہ موثر ہوں اور سیاسی فیصلے زیادہ حقیقی، کاروباری فیصلے زیادہ ذمے دارانہ ہوں اور قانون سازی زیادہ مبنی بر انصاف۔
اصل بات یہ ہے خالی کرسی ایک صحیح سمت متعین کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ یہ اُس آئینے کی طرح ہے، جو ہمیں دکھاتا ہے کہ ہمارے فیصلے کا اصل اثر کس پر پڑے گا؟ یہ نہیں بتاتا کہ ہم غلط ہیں، بل کہ یہ بتاتا ہے کہ ہم کس کے فائدے میں فیصلہ کر رہے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ خالی کرسی ہر فیصلے میں موجود رہنا چاہیے۔
یہ نظام صرف کارپوریٹ دنیا میں محدود نہیں رہنا چاہیے۔ ہر شعبۂ زندگی میں اس کا استعمال ہونا چاہیے۔ گھر میں والدین، اسکول میں اساتذہ، ہسپتال میں ڈاکٹرز، دفتر میں افسران، سیاست میں لیڈرز……سب کو اپنی میٹنگوں میں ایک خالی کرسی رکھنی چاہیے، جو اُن لوگوں کی نمایندگی کرے، جو فیصلے سے متاثر ہوتے ہیں، لیکن فیصلے میں شامل نہیں ہوتے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی سہولت کو عوامی فائدے سمجھتے ہیں، اپنی ترجیح کو اجتماعی ضرورت سمجھتے ہیں اور اپنی مرضی کو حکمتِ عملی سمجھتے ہیں۔
خالی کرسی کا اصل فلسفہ یہ ہے کہ ہر فیصلہ میں اُن لوگوں کی آواز شامل ہو، جو بہ راہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہر چیز میں مداخلت کی اجازت دے دیں۔ اصل مہارت یہ ہے کہ آپ اپنے فیصلے کو متاثرہ لوگوں کے نقطۂ نظر سے دیکھیں۔ اگر آپ کا فیصلہ اُن کے لیے فائدہ مند ہے، تو آگے بڑھیں۔ اگر نقصان دہ ہے، تو دوبارہ سوچیں۔
جیف بیزوس کی خالی کرسی صرف ’’ایمازون‘‘ کا اُصول نہیں، بل کہ زندگی کا ایک اہم اُصول ہے۔ یہ اُصول ہمیں سکھاتا ہے کہ اصل کام یابی اُسی میں ہے، جو سب کے فائدے میں ہو۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










