پاکستان میں جمہوریت کا جو چہرہ ہمیں دکھایا جاتا ہے، وہ آئینی صفحات پر لکھے خوب صورت جملوں میں تو چمکتا ہے، لیکن جب ہم گلی، محلے، قصبے اور دیہات کی سطح پر جمہوریت کی روح کو تلاش کرنے نکلتے ہیں، تو ہر طرف مایوسی، جمود اور استحصال کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ملتا ہے۔
خاص طور پر اگر ہم بلدیاتی نظام کا جائزہ لیں، تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہمارا بلدیاتی ڈھانچا صرف کاغذی حیثیت میں موجود ہے، عملاً یہ ادارے مردہ لاشوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
مارچ 2022ء سے لے کر آج اگست 2025ء تک، کسی بھی تحصیل چیئرمین، مئیر، وائس چیئرمین یا یونین کونسل کے منتخب نمایندے نے کوئی قابلِ ذکر عوامی خدمت سرانجام دی ہو، تو عوام کو وہ یاد بھی نہیں۔
ذکر شدہ پورے عرصے میں، بلدیاتی ادارے نہ صرف غیر فعال رہے، بل کہ مکمل طور پر بے اختیار اور عوام کی نظروں میں بے توقیر بھی ہوئے۔
٭ بلدیاتی یا سرٹیفکیٹ دفتر؟
ہمارے بلدیاتی دفاتر آج صرف اور صرف دو کاموں کے لیے پہچانے جاتے ہیں:
٭ پیدایش اور موت کے سرٹیفکیٹس کی تصدیق۔
٭ کسی این جی او کے ذریعے چلنے والے وقتی، نمایشی اور غیر موثر ٹریننگ پروگرام۔
کبھی کبھار یونین کونسل کی عمارت میں پرانی میزوں پر گرد آلود رجسٹر کھول کر کسی مجبور ماں باپ کے بچوں کی ولادت کے کاغذات تیار کیے جاتے ہیں، تو کبھی کسی خالی ہال میں چند بے روزگار نوجوانوں کو چند دنوں کی تربیت دے کر ’’یوتھ امپاورمنٹ سرٹیفکیٹ‘‘ تھما دیا جاتا ہے، گویا حکومت نے اُن کا مستقبل سنوار دیا ہو۔
ہمارے بلدیاتی نمایندوں کا حال یہ ہے کہ اُنھوں نے عوامی نمایندگی کو صرف واسکٹ پہن کر جنازوں میں شرکت، شادیوں میں دعائیں دینے یا سوشل میڈیا پر کھلی کچہریوں کی تصاویر پوسٹ کرنے تک محدود کر دیا ہے۔ اُن کی تمام سیاسی سرگرمیاسی نمایشی دائرے میں گھومتی ہیں۔ اُن کے ہاتھ میں فنڈ ہوتا ہے ، نہ اختیار، نہ قانون سازی کا حق اور نہ کسی افسر کو جواب دہ بنانے کی طاقت…… بل کہ حقیقت تو یہ ہے کہ بلدیاتی افسران، ان نمایندوں کو انسان تک نہیں سمجھتے ۔
جب کوئی چیئرمین یا کونسلر، واٹر سپلائی، سینی ٹیشن، سٹریٹ لائٹس یا کسی بھی بنیادی سہولت کی بات کرتا ہے، تو ٹی ایم اے یا ضلع کونسل کا افسر اُس کی بات سننا تک گوارا نہیں کرتا۔ یوں یہ نمایندے یا تو عوام کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں، یا پھر اپنی بے بسی کو چھپانے کے لیے پروٹوکول کے پردے میں چھپ جاتے ہیں۔
ایم این اے اور ایم پی اے، کونسلروں کے کام کر رہے ہیں۔ صورتِ حال یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ جو کام ماضی میں ایک کونسلر، وارڈ ممبر یا یونین کونسل کا چیئرمین کیا کرتا تھا، آج وہ کام صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین انجام دے رہے ہیں۔ کسی محلے میں اگر ٹرانس فارمر نصب ہونا ہے، اگر کسی گاؤں میں ٹیوب ویل کا افتتاح ہونا ہے، یا کسی بازار میں نالے کی صفائی کرنی ہے، تو وہ ایم این اے صاحب کریں گے، یا ایم پی اے صاحب۔ حالاں کہ اُن کا کام قانون سازی، پالیسی سازی، بجٹ کی منظوری اور منصوبہ بندی کی نگرانی ہوتا ہے، لیکن وہ بلدیاتی نظام کی لاش پر سیاست کر رہے ہیں اور چھوٹے چھوٹے ترقیاتی منصوبے اپنی جھولی میں ڈال کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔
یونین کونسل، تحصیل اور میونسپل سطح پر منتخب ہونے والے نمایندے جب اپنے دفتر کا بورڈ لگا کر بیٹھتے ہیں، تو اُن کے ذہن میں عوامی خدمت کے ارمان مچلتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اَب کچھ بدل سکتے ہیں…… لیکن جیسے ہی وہ عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں، تو اُنھیں حقیقت کا سامنا ہوتا ہے۔ اُنھیں فنڈ دیا جاتا ہے، نہ اختیار۔ وہ کوئی ترقیاتی کام کرا سکتے ہیں، نہ کسی ملازم کو جواب دہ بنا سکتے ہیں، نہ کوئی اسکیم ہی شروع کرا سکتے ہیں۔
نتیجتاً وہ عوام کی نظر میں ایک بے وقعت، ناکام اور جھوٹے نمایندے بن کر رہ جاتے ہیں۔ لوگ اُن پر ہنستے ہیں، طعنے دیتے ہیں اور گالیاں نکالتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جو عوام کے ووٹ سے جیتے ہیں، لیکن اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ اُن کا حال دولہے شاہ کے اُن چوہوں جیسا ہوتا ہے، جن کی زبان ہوتی ہے، نہ خودی اور نہ حیثیت۔
ایک طرف تو یہ نمایندے روتے ہیں کہ انھیں فنڈز نہیں ملتے، کام نہیں کرنے دیا جاتا، اختیارات کا قتل ہوچکا ہے…… لیکن دوسری طرف جب ان کی تحصیل یا میونسپل عمارت کے باہر سے گزریں، تو گاڑیوں کا قافلہ، پولیس کا پروٹوکول اور عملے کی قطاریں اس بات کا اعلان کر رہی ہوتی ہیں کہ ’’یہی ہیں وہ عوامی نمایندے جنھیں آپ نے منتخب کیا تھا!‘‘
ان کا پروٹوکول، تنخواہیں، دفاتر، سرکاری گاڑیاں، ہوٹلنگ، بیرونی دورے…… سب کچھ قائم و دائم رہتا ہے۔ عوام مر رہے ہوں، فنڈز ختم ہوں، پراجیکٹ رُکے ہوئے ہوں، دفاتر بند ہوں، انھیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ چار سال تک یہ نمایندے اسی پروٹوکول کی لذتوں میں مست رہتے ہیں…… اور جب مدت پوری ہوجاتی ہے ، تو ایک اور نیا نعرہ، ایک اور نیا جھنڈا اور ایک اور نیا فریب لے کر پھر میدان میں آ جاتے ہیں۔
عوام کا معاملہ بھی دل چسپ اور افسوس ناک ہے۔ یہ وہی عوام ہیں، جو ہر انتخاب میں نیا سپنا دیکھتے ہیں۔ کبھی گدھے کو خان کے نام پر ووٹ دیتے ہیں، کبھی شیر کے جھنڈے تلے کسی سرمایہ دار کو اپنا حکم ران چنتے ہیں، کبھی تیر کے نشے میں وہی پرانے چہروں کو دوبارہ جِتا دیتے ہیں، اور کبھی قوم پرستی یا مذہب کا نعرہ سن کر ایک اور تجربہ کرلیتے ہیں…… لیکن اُن میں سے کسی سے یہ نہیں پوچھتے کہ ’’جب ایک سال تک آپ کو فنڈ نہیں ملے، تو آپ نے استعفا کیوں نہیں دیا؟‘‘
عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اُن کا نمایندہ چار سال صرف پروٹوکول انجوائے کرتا رہا۔ اُنھیں اُس کا احتساب کرنا آتا ہے، نہ سوال کرنے کی عادت ہی ہے۔ کیوں کہ شاید وہ خود بھی اپنے خوابوں کا قتل کرچکے ہیں اور اُنھیں یقین ہوچکا ہے کہ یہ نظام بدلے گا نہیں۔
٭ حل کیا ہے؟
یہ سوال بہت اہم ہے کہ اگر نظام ناکام ہے، تو اسے بدلنے کا راستہ کیا ہے؟ اس کے لیے چند بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے، جیسے کہ
٭ بلدیاتی اداروں کو آئینی تحفظ دیا جائے:۔ جیسے قومی و صوبائی اسمبلیاں مدت مکمل کرتی ہیں، بلدیاتی اداروں کی مدت، اختیارات اور فنڈز بھی آئینی طور پر محفوظ ہوں۔
٭ وسائل کی بہ راہِ راست منتقلی:۔ ترقیاتی فنڈز بہ راہِ راست یونین کونسل، تحصیل اور ضلعی سطح پر منتقل کیے جائیں۔
٭ احتسابی نظام فعال کیا جائے:۔ بلدیاتی نمایندوں کے لیے کام نہ کرنے کی صورت میں آڈیٹ، مواخذہ اور عوامی شکایات کا واضح نظام بنایا جائے۔
٭ عوامی شعور کی بیداری:۔ ووٹ صرف پارٹی پر نہیں، کارکردگی پر دیا جائے۔ پروٹوکول نہیں، خدمت کو معیار بنایا جائے۔
٭ سیاست سے پروٹوکول کا خاتمہ:۔ جس نمایندے کے پاس اختیارات نہیں، اُس کے لیے پروٹوکول بھی بند کیا جائے۔
قارئین! ہمیں بہ طور قوم فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کب تک اس نمایشی، ناکام اور استحصالی نظام کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے؟
کب تک ہم گدھوں، شیروں، تیروں اور سبز جھنڈوں کے فریب میں آتے رہیں گے؟
کب تک ہم بلدیاتی نمایندوں کو بے اختیار اور عوام کو بے وقعت رکھنے کی اجازت دیں گے؟
کب تک ہم دولہے شاہ کے چوہے بنے رہیں گے؟
وقت آ چکا ہے کہ ہم خوابوں کی لاشوں پر سیاست کرنے والوں سے سوال کریں اور اس نظام کو بدلنے کے لیے شعوری قدم اُٹھائیں۔
جنوں تبدیلیِ موسم کا تقریروں کی حد تک ہے
یہاں جو کچھ نظر آتا ہے، تصویروں کی حد تک ہے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










