خیبر پختونخوا یا آپریشن تھیٹر……؟

Blogger Fazal Khaliq

چند روز قبل سوشل میڈیا پر میری نظر سے مشرق اخبار کا ایک اقتباس گزرا، جس کے اختتام پر یہ جملہ درج تھا کہ ’’خیبرپختونخوا، ایک آپریشن تھیٹر یا امن کے متلاشی عوام؟‘‘ تو سوچا کیوں نہ اسی جملے کو بنیاد بنا کر ایک مضمون تحریر کیا جائے……!
پاکستان کا صوبہ خیبرپختونخوا، جو کبھی امن، روایت اور ثقافت کی علامت تھا، پچھلے 22 برس سے خون، بارود اور بارود کے دھوئیں میں لپٹا ایک ’’مستقل آپریشن تھیٹر‘‘ بن چکا ہے۔ پے در پے فوجی آپریشن، شدت پسندی، خود کُش دھماکوں اور بے گناہوں کی لاشوں نے اس سرزمین کو غم، تباہی اور لامتناہی مسائل میں دھکیل رکھا ہے…… لیکن سوال یہ ہے کہ اتنی قربانیوں کے باوجود امن کہاں ہے؟
خیبرپختونخوا میں پچھلے 22 برس سے ’’شیر دل‘‘، ’’راہِ راست‘‘، ’’راہِ نجات‘‘، ’’المیزان‘‘، ’’بلیک تھنڈر‘‘، ’’کوہِ سفید‘‘، ’’دراغلم‘‘، ’’بیا درا غلم‘‘، ’’خوخ بہ دی شم‘‘، ’’ضربِ عضب‘‘، ’’ردالفساد‘‘ اور ’’سربکف‘‘ جیسے عجیب و غریب ناموں والے بڑے فوجی آپریشن کیے جاچکے ہیں۔
ہر آپریشن کا دعوا یہی تھا کہ ’’یہ آخری ہوگا‘‘، ’’دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا جائے گا‘‘ مگر ہر بار امن کا خواب مزید دھندلا ہوتا گیا اور بدامنی ختم نہ ہوئی، پختونوں کا خون بہنا بند نہ ہوا، پختون بچوں کے ہاتھوں میں کتاب، قلم اور کمپیوٹر نہیں آسکا۔ ان آپریشنوں کی قیمت خیبر پختونخوا کے عوام نے چکائی، یعنی 80 ہزار شہادتیں، 35 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر، 140 ارب ڈالر سے زائد مالی نقصان اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر، سکول، بازار، اسپتال اور زندگی مفلوج……!
یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستانی ریاست نے امریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر افغانستان میں جہاد کے نام پر ایک منظم عسکری منصوبہ بندی کی۔ پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس اداروں نے نہ صرف مجاہدین کو تربیت دی، بل کہ اُنھیں ریاستی مفاد کا آلہ بھی بنایا۔ اور تو اور کئی فوجی جرنیلوں بہ سمیت پرویز مشرف نے خود کہا کہ طالبان ہم نے بنائے ہیں اور یہ ہمارا اثاثہ ہیں۔
اب کئی تجزیہ نگار اور عوام یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ کیا دہشت گردی اور آپریشن کا یہ سلسلہ واقعی انتہاپسندی کے خلاف ہے یا پھر اس کے پیچھے کچھ مخصوص طبقات کے سیاسی، عسکری اور مالی مفادات چھپے ہوئے ہیں……؟
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پچھلی دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف تمام بڑے آپریشن خیبرپختونخوا اور سابقہ قبائلی علاقوں میں کیے گئے، جب کہ پنجاب، جو کہ طاقت کا مرکز اور اسٹیبلشمنٹ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، بڑے پیمانے پر محفوظ رہا۔
پختون قوم کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اور ہر بار انھی کو ’’قربانی کا بکرا‘‘ بنایا گیا۔ تاہم کب تک ان بے گنا ہ پختونوں کے ساتھ یہ کھیل کھیلا جائے گا؟ اب ایسا لگتا ہے کہ عوام کی آنکھیں کھل چکی ہیں اور اب خیبرپختونخوا کے عوام مزید خاموش نہیں رہنے والے۔ انھیں پچھلے کئی برسوں کی دہشت گردی، تباہی، نقلِ مکانی اور ریاستی خاموشی نے سکھا دیا ہے کہ دہشت گرد اور اسٹیبلشمنٹ ایک ہی صفحے پر ہیں۔ عوام اب ان ’’ڈراموں‘‘ کو ’’ڈالری جنگ‘‘ کہتے ہیں…… یعنی یہ سب کچھ بیرونی فنڈنگ، مالی مفادات اور اسٹریٹجک کھیل کا حصہ ہے، نہ کہ سچ مچ کا جہاد۔
پختون عوام اب مزید خاموشی کو گناہ سمجھتے ہیں۔ وہ ہر دن سڑکوں پر نکلتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں اور ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں امن دو، ہمیں خوش حالی دو، ہمیں تعلیم دو، ہمیں روزگار دو، ہمیں باقی ملک کی طرح تری جی، فور جی اور جدید تعلیم دو۔ وہ اپنی سرزمین پر امن، ترقی اور جدیدیت چاہتے ہیں…… اُس زمین پر جہاں وہ ہزاروں سال سے آباد ہیں۔ اس ریاست کے لیے شرم کا مقام ہے کہ عوام ریاست سے امن کا مطالبہ کرتے ہیں اور ریاست ہی اُن سے امن چھین رہی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ’’پختون دہشت گرد ہے!‘‘ مگر اس ریاست سے کوئی کہے کہ پختون دہشت گرد نہیں، بل کہ دہشت گردی کے مارے ہیں۔
جونؔ ایلیا کا شعر اس صورتِ حال میں کچھ یوں لگتا ہے جیسے خیبرپختونخوا کے عوام کی آواز ہو:
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
مختصر یہ کہ خیبرپختونخوا کی سرزمین اب مزید خون نہیں مانگتی، وہ صرف انصاف، اعتراف اور اصلاح مانگتی ہے۔ ریاستی اداروں، حکومتوں اور عوامی نمایندوں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ امن صرف بندوق سے نہیں، بل کہ عوامی اعتماد، برابری اور ترقیاتی منصوبوں سے آتا ہے۔
قارئین! اب وقت آگیا ہے کہ ریاست اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرے اور وہی امن دے، جو وہ خود اپنے لیے چاہتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے