صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک بار پھر فوجی آپریشن کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ باجوڑ اور وزیرستان کے حالات، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے پس منظر میں یہ سوال شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا یہ آپریشن صوبے کی مرضی سے ہو رہا ہے، یا وفاق اپنی مرضی مسلط کر رہا ہے؟
یہ محض ایک سیاسی بحث نہیں، بل کہ ایک آئینی سوال بھی ہے…… اور آئین اس پر بڑی وضاحت کے ساتھ بات کرتا ہے۔
آئین کیا کہتا ہے؟
پاکستان کے آئین کی چند اہم دفعات اس معاملے میں بنیادی رہنمائی فراہم کرتی ہیں:
٭ آرٹیکل 243:۔ آرٹیکل 243 کے مطابق، فوج اور دیگر مسلح افواج کا کنٹرول مکمل طور پر وفاقی حکومت کے پاس ہے۔
٭ آرٹیکل 245:۔ آرٹیکل 245 کہتا ہے کہ وفاقی حکومت، فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے طلب کرسکتی ہے اور یہ عمل عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتا۔
٭ آرٹیکل 146:۔ آرٹیکل 14 6 کے تحت، وفاقی حکومت کوئی بھی انتظامی اختیار کسی صوبے کو تفویض کرسکتی ہے اور اس کا اُلٹ بھی ممکن ہے، یعنی صوبائی حکومت اپنی درخواست پر وفاق سے فوجی مدد طلب کرسکتی ہے۔
٭ آرٹیکل 148:۔ آرٹیکل 148 واضح کرتا ہے کہ وفاق کو کسی صوبے میں عمل کرتے وقت صوبے کے مفاد کو مقدم رکھنا ہوگا۔
قارئین! یہ سب دفعات مل کر ایک اُصول طے کرتی ہیں کہ کسی بھی صوبے میں فوجی آپریشن کا آغاز عموماً صوبائی حکومت کی درخواست یا رضامندی کے بغیر نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ وفاق آئین کے آرٹیکل 232 یا 234 کے تحت ایمرجنسی نافذ کر دے۔
٭ تاریخی مثال 2008ء کا آپریشن ضربِ عضب:۔ یہ بحث محض سرسری نہیں۔ 2008ء میں جب دہشت گردی کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کا آغاز کیا گیا، تو صوبہ خیبر پختونخوا میں اُس وقت اے این پی کی حکومت تھی۔ ریکارڈ کے مطابق، یہ آپریشن صوبائی حکومت کی رضامندی اور درخواست پر ہوا تھا۔ اس کا مکمل مالی بوجھ بھی صوبائی حکومت نے خود اُٹھایا تھا اور بعد میں اے این پی نے اس کارروائی کو اپنی ’’سیاسی کام یابی‘‘ کے طور پر پیش کیا تھا۔
دراصل یہ مثال اس بات کو مضبوط کرتی ہے کہ فوجی آپریشن صرف وفاقی ادارے کی یک طرفہ کارروائی نہیں، بل کہ ایک باقاعدہ ’’صوبائی و وفاقی ہم آہنگی‘‘ کا نتیجہ ہوتا ہے۔
٭ موجودہ صورتِ حال باجوڑ اور وزیرستان آپریشن:۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں ہونے والے حالیہ آپریشن، خاص طور پر باجوڑ اور وزیرستان میں، صوبائی حکومت (جو اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف کے کنٹرول میں ہے) کی حمایت اور درخواست پر جاری ہیں۔
آئینی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ:
٭ یہ کارروائیاں صوبائی رضامندی سے ہو رہی ہیں۔
٭ ان کا مکمل مالی بوجھ صوبائی حکومت کے سر ہے۔
اس لیے اگر صوبائی قیادت عوام یا میڈیا کے سامنے یہ تاثر دے کہ ’’یہ وفاق کا یک طرفہ اقدام ہے!‘‘ تو یہ آدھا سچ ہوگا اور آدھا سچ ہمیشہ ایک طرح کا فریب ہوتا ہے۔
٭ اصل سوال، عوام کے ساتھ سچائی یا سیاست؟:۔ صحافت کا بنیادی اُصول یہ ہے کہ حقائق کو بغیر لگی لپٹی بیان کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر صوبائی حکومت اس آپریشن کے خلاف ہوتی، تو آئین میں واضح راستے موجود تھے، جن کے تحت وہ اپنی مخالفت درج کرا سکتی تھی…… لیکن موجودہ صورتِ حال میں نہ صرف خاموش حمایت موجود ہے، بل کہ باقاعدہ درخواست اور اجازت بھی دی گئی ہے۔
اب عوام کا یہ حق ہے کہ اُنھیں صاف صاف بتایا جائے کہ یہ آپریشن صوبائی حکومت کی مرضی اور رضامندی سے ہو رہا ہے اور اس کا خرچہ بھی صوبہ ہی ادا کر رہا ہے۔
آئینی دائرۂ کار، تاریخی مثال اور موجودہ شواہد سب ایک ہی نتیجے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ فوجی آپریشن خیبر پختونخوا میں وفاق کی مرضی سے نہیں، بل کہ صوبائی درخواست پر ہو رہے ہیں، اور جب صوبائی حکومت اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کرتی ہے، تو سیاسی فائدے کے لیے عوام کے سامنے مجبوری کا ڈراما رچانا نہ صرف غیر اخلاقی ہے، بل کہ جمہوری شفافیت کے اصول کے بھی خلاف ہے ۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










