سوات تعلیمی بورڈ کی جانب سے جاری کردہ ڈی ایم سیز میں مطالعۂ قرآن کے کل نمبروں میں جو غلطی سامنے آئی ہے، وہ نہ صرف ایک معمولی تکنیکی غلطی ہے، بل کہ تعلیمی نظام کی بنیادی شفافیت اور معیار پر ایک گہرا سوالیہ نشان ہے۔ اس غلطی میں مطالعۂ قرآن کے کل نمبر 100 کی بہ جائے 150 درج کر دیے گئے، جس کی وجہ سے طلبہ کے نتائج پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہ مسئلہ ایک اہم تعلیمی دستاویز کے اعتبار سے انتہائی سنجیدہ نوعیت کا ہے۔ کیو ں کہ طلبہ کی محنت، اُن کے تعلیمی مستقبل اور اعلا تعلیم کے مواقع ان نمبروں کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔
تعلیمی بورڈ کے ذمے داران کی جانب سے اس قسم کی غلطی ظاہر کرتی ہے کہ جہاں ڈیٹا کی جانچ پڑتال اور درستی کو ترجیح دی جانی چاہیے تھی، وہاں غفلت برتی گئی۔ یہ مسئلہ صرف ایک غلط نمبر داخل کرنے کا نہیں، بل کہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ تعلیمی نظام میں نگرانی اور کوالٹی کنٹرول کے موثر اقدامات موجود نہیں۔ ایک تعلیمی بورڈ کی حیثیت سے جہاں طلبہ کے نتائج کی تصدیق اور شفافیت بنیادی ذمے داری ہوتی ہے، وہاں ایسی غلطیاں نظام کی کم زوری کا ثبوت ہیں۔ اس کے باعث نہ صرف طلبہ اور والدین کے درمیان اعتماد کم زور ہوتا ہے، بل کہ تعلیم کے معیار پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ایسے غلط نمبروں کی وجہ سے طلبہ کے کل نمبروں اور فی صدی کارکردگی میں غیر حقیقی اضافہ یا کمی واقع ہوسکتی ہے، جو میرٹ کی فہرستوں کو غیر منصفانہ بنا سکتا ہے۔ اس کا بہ راہِ راست اثر داخلوں، وظائف اور کیریئر کے دیگر اہم مواقع پر پڑتا ہے۔ کئی طلبہ جن کی محنت اور کارکردگی کی درست عکاسی نہیں ہوتی، اُنھیں نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے، جب کہ بعض کو غیر منصفانہ فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے، جو تعلیمی نظام کی جانچ پڑتال کے اُصولوں کے منافی ہے۔
ایسی صورتِ حال میں تعلیمی بورڈ کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ فوری طور پر اس غلطی کا اعتراف کرے اور تمام متاثرہ طلبہ کے ڈی ایم سیز کو واپس لے کر درست کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ واضح اور شفاف وضاحت پیش کی جائے، تاکہ طلبہ، والدین، اساتذہ اور متعلقہ حکام کا اعتماد بہ حال ہوسکے۔
مزید برآں، ایک آزادانہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے، جو اس بات کا جائزہ لے کہ یہ غلطی کس مرحلے پر ہوئی، اس کی اصل وجوہات کیا ہیں اور آیندہ ایسے مسائل سے بچاو کے لیے کیا عملی اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟
اس تحقیق کے نتائج کو عام کرنا اور ذمے داروں کے خلاف مناسب کارروائی کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ مستقبل میں تعلیمی معیار اور شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے۔
تعلیمی اداروں کی ساکھ اور معیار صرف نصاب، امتحانات یا اساتذہ کی کارکردگی سے نہیں ناپے جاتے، بل کہ اس بات سے بھی جڑے ہوتے ہیں کہ وہ کس حد تک شفافیت، ذمے داری اور معیار کے اُصولوں پر عمل پیرا ہیں۔ اگر اُن اُصولوں میں کم زوری آئے، تو سب سے زیادہ نقصان وہ نوجوان اٹھاتے ہیں جو اپنی محنت اور لگن سے زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ایسے واقعات سے تعلیمی اداروں پر اعتماد متزلزل ہوتا ہے اور اس کا منفی اثر پورے تعلیمی نظام پر پڑتا ہے۔
لہٰذا یہ وقت ہے کہ تعلیمی بورڈ اور متعلقہ حکام اس واقعے کو سنجیدگی سے لیں۔ اس کے سدباب کے لیے ٹھوس اور موثر اقدامات کریں اور ایسے نظام وضع کریں جو ہر مرحلے پر نتائج کی درستی کو یقینی بنائیں۔ تعلیمی نظام میں شفافیت اور معیار کی حفاظت کے لیے مناسب نگرانی، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور انسانی غلطیوں کے سدباب کے لیے مضبوط اقدامات ناگزیر ہیں۔ اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے، تو تعلیمی ادارے محض کاغذی نظام بن کر رہ جائیں گے، جن پر طلبہ اور والدین کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں قومی تعلیمی معیار بھی متاثر ہوگا۔ ایسے میں یہ سب کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے طلبہ کے مفاد میں فوری اور موثر حل تلاش کریں، تاکہ مستقبل میں اس قسم کی غلطیوں کا دوبارہ اعادہ نہ ہو۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










