1960ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں تک بنڑ ہائی سکول (مینگورہ) کے ارد گرد کا علاقہ بالکل غیر آباد تھا۔ سب سے قریبی، بل کہ بالکل لگی ہوئی عمارت سیٹھ کامران کی جدید ترین محل نما کوٹھی تھی، جو اُن کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ اُس وقت مَیں کالج میں پڑھتا تھا۔ کچھ زیادہ نہیں جانتا تھا۔
بنڑ سکول کی عمارت بہت بڑی اور خوب صورت لگتی تھی۔ اس کی بیرونی دیواریں زرد رنگ کی مٹی سے رنگی ہوئی تھیں۔ اُن دنوں ریاست کی عمومی عمارات اسی رنگ میں رنگی ہوا کرتی تھیں…… سوائے صحت کے مراکز، جو سفید رنگ کے ہوا کرتے تھے۔ جہانزیب کالج کی شان دار عمارت بھی اسی رنگ کی تھی۔
ہم نے سنا تھا کہ والی سوات نے اٹلی کے سرکاری دورے کے موقع پر وہاں اس رنگ کی آبادیاں دیکھ کر اسے پسند کیا تھا۔
بنڑ سکول کا مین گیٹ سڑک کی طرف نہیں تھا، بل کہ دوسری جانب صاف شفاف پانی کی نہر کے رُخ تھا۔ بچے اُسی نہر میں تختیاں دھوتے پائے جاتے۔ چوں کہ یہ دریا کا پانی تھا، اس لیے ٹھنڈا اور فرحت بخش تھا۔
نہر کے کنارے سکول کی حدود میں پشتے بنائے گئے تھے، جن میں وضو کا بھی انتظام تھا۔
یہ نہر آگے چل کر مٹی کے چٹانوں میں بنی مصنوعی فال کے ذریعے کچھ پن چکیاں چلاتی تھی۔ بعد میں یہاں پر شہزادہ سلطان روم نے پہلا بسوں کا اڈّا اور ہوٹل تعمیر کروایا، جو گرین اڈّا، گرین ہوٹل اور گرین چوک کہلایا جانے لگا۔
جولائی 1961ء کی پہلی تاریخ کو مَیں نے سٹیٹ پی ڈبلیو ڈی جائن کی اور تیسرے دن میری پہلی ’’اسائنمنٹ‘‘ بنڑ سکول کے طلبہ کے لیے نئی تعمیر شدہ لیٹرینز کا فائنل بِل اور پیمایش تھی۔
مَیں نے میٹرک تک جیومیٹری پڑھی تھی اور کسی بھی شکل کی ’’کوانٹیٹی‘‘ معلوم کرنا میرے لیے مشکل نہ تھا،مگر فیلڈ کے تقاضے کچھ اور تھے۔
ہمارے ایک محترم سینئرساتھی مرحوم فضل رحیم خان میرے پہلے گائڈ اور انسٹرکٹر بن گئے۔ مجھ سے پیمایش کروائی۔ مجھ سے کیلکولیشنز کروائے اور یقین کیجیے، اُسی اک آدھ گھنٹے نے مجھے اتنا کچھ سکھایا کہ میں 44 سال تک یہی کام کرتا رہا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










