(نوٹ:۔ یہ تحریر فضل رازق شہابؔ صاحب نے 31جولائی 2022ء کو تحریر کی تھی، جو آج بھی اُن کی فیس بُک وال پر موجود ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
سواتیوں کو ابھی تک یہ احساس نہ ہوسکا کہ گراسی گراؤنڈز کے مجوزہ سپورٹس کمپلیکس میں تبدیلی سے اُن کا کتنا تاریخی ورثہ ماضی کے قبرستان میں دفن ہو جائے گا۔
یہ 3 گراؤنڈ تھے، جو "Terracial formation” میں تیار کیے گئے تھے۔ ان پر والی سوات کے تخت نشینی کے دوسرے سال سے کام شروع ہوا تھا اور کالج کی تکمیل کے ساتھ یہ بھی تیار ہوچکے تھے۔ اُن دنوں کسی قسم کے ایکسکویٹر نہیں تھے، نہ گریڈر ہی تھے۔ سوات کی فوج نے کدال، گینتی اور بیلچے کے ذریعے یہ کارنامہ سر انجام دیا تھا۔
پھر اس کے لیے مختلف مقامات سے گھاس کے قطعہ جات لاکر بچھا دیے۔ اُن دنوں گراسی گراؤنڈ کے جنوب کی طرف ایک واٹر چینل بہ رہا تھا۔ اُس کا پانی گراؤنڈ میں چھوڑ دیا جاتا، تاکہ قدرتی گھاس کی جڑیں زمین کے اندر پھیلتی جائیں۔
اگر کسی کو یاد ہو، تو یہ قدرتی گھاس آسٹرو ٹرف سے زیادہ دیدہ زیب اور پائیدار تھی۔
پہلے پہل 12 دسمبر اور بعد میں 5 جون کو یہاں ایک زبردست ’’فوجی پریڈ‘‘ ہوتی تھی، جس میں سکول کے بچے بھی شامل ہوتے تھے۔ والی سوات پیویلین کے ایک چبوترے پر کھڑے ہوکر پریڈ کی سلامی لیتے تھے۔
فٹ بال اور ہاکی کے فروغ میں ان گراؤنڈز کا زبردست کردار رہا۔ سب سے دل چسپ ایونٹ ’’آل پاکستان اورنگزیب فٹ بال ٹورنمنٹ‘‘ ہوا کرتا تھا، جس میں کراچی، کوئٹہ، پشاور وغیرہ کے علاوہ سیدو شریف اور مینگورہ کی پرائیویٹ ٹیمیں بھی حصہ لیتی تھیں۔ ایک سال بمبئ (انڈیا) سے بھی ایک ٹیم آئی تھی۔
عام دنوں میں مینگورہ اور سیدو شریف کی ٹیموں میں مقابلے ہوتے، تو دونوں طرف کے لوگ بڑے جوش و خروش سے مقابلوں کا لطف اٹھاتے۔
مینگورہ کے بعض مشہور کھلاڑیوں میں عبدالغفار پاپا، اس کا بھائی سید غفار، تاج ملوک اور برکت کے نام مجھے یاد ہیں۔ سیدو شریف کے کھلاڑیوں میں ڈاکٹر سلطان، غلام نذیر اور امیر رحمان کمپاؤنڈر اور محمد یوسف میاں اپنی ٹیم کے لیے زبردست جارحانہ کھیل کھیلتے تھے۔
اے اہلِ سوات! خدارا، اپنے ورثہ کی حفاظت کریں۔ ورنہ آپ پھر صدیوں پچھتائیں گے۔ بہت جلد یہ میدان آپ کے لیے اور آپ کی آنے والی نسلوں کے لیے ممنوعہ قرار دیے جائیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔











One Response
میں فضل رازق شہاب صاحب کا بہت فین ہوں. حال ہی میں ان کو پڑهنا شروع کیا ہے اور کل ہی میں نے انکی خود نوشت پڑھی، جسکے بعد انکی کہانی میں کھو گیا ہوں.
بہت اچھے لکھاری ہیں، لمبی کہانی کو مختصر اور جامع انداز میں بیان کرنا کہ قاری بڑے آسانی سے سمجھ سکے اور الفاظ کو کمال کے چنتے ہیں.
انکی صحت و سلامتی کیلئے دعا گو ہوں .