سوات، 40 ہزار طلبہ فیل، وجوہات کیا ہیں؟

Blogger Engineer Miraj Ahmad

سوات، جو ماضی میں تعلیم و تہذیب کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسے تعلیمی بحران کا شکار ہوچکا ہے، جس کی مثال پورے خیبر پختونخوا میں کم ہی ملتی ہے۔
سرسبز پہاڑوں، بہتے دریاؤں اور مہذب ثقافت کے حامل اس خطے میں آج 40 ہزار طلبہ کا فیل ہوجانا محض ایک عددی ناکامی نہیں، بل کہ یہ ایک سماجی، اخلاقی اور تعلیمی زوال کی واضح علامت ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہوا جس نے سوات جیسے باشعور اور تعلیمی روایات کے امین خطے کو اس نہج پر پہنچا دیا؟
اس تباہی کی شروعات گھر سے ہوتی ہے۔ جب والدین بچوں کو ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار دیتے ہیں، اُن کے ہر ناجائز مطالبے کو جائز قرار دیتے ہیں اور ’’میرا بچہ کچھ غلط نہیں کرسکتا‘‘ جیسے زہریلے نظریے کو پروان چڑھاتے ہیں، تو وہ خود اپنے بچوں کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہوتے ہیں، جو پھر اُستاد کے سامنے گردن بلند کرکے کھڑے ہوتے ہیں، جو اسکول کے نظم و ضبط کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور جنھیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ تعلیم صرف کلاس روم میں بیٹھنے کا نام نہیں، بل کہ یہ ایک اخلاقی، فکری اور سماجی تربیت کا عمل ہے۔
پیسے کی فراوانی بھی ایک ناسور بن چکی ہے۔ موبائل، لیپ ٹاپ، موٹر بائیک اور دیگر پُرتعیش اشیا بچوں کے ہاتھوں میں دے کر والدین سمجھتے ہیں کہ اُنھوں نے اپنے بچوں کی زندگی سنوار دی ہے…… مگر حقیقت یہ ہے کہ ان چیزوں نے بچوں کو تعلیم سے دور اور فضول مشاغل کی طرف راغب کر دیا ہے۔ جب بچے ساری رات موبائل فون پر سوشل میڈیا یا ویڈیوز میں مشغول رہیں گے، تو وہ صبح اسکول کے لیے کیسے تیار ہوں گے…… اور اگر اسکول پہنچ بھی جائیں، تو اُن کا دماغ کہاں ہوگا…… تعلیم میں یا موبائل کی اسکرین میں؟
سکولوں سے لاتعلقی کا عالم یہ ہے کہ والدین بچوں کو سال میں کئی مرتبہ اسکول تبدیل کرواتے ہیں۔ اساتذہ، نصاب، ماحول، سب کچھ بدل جاتا ہے اور بچہ کبھی ایک مستقل تعلیمی سلسلے میں نہیں آپاتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نہ اسے سبق سمجھ آتا ہے، نہ وہ کسی استاد سے وابستگی محسوس کرتا ہے اور نہ اسکول سے کوئی اُنسیت ہی پیدا ہوتی ہے۔
اس پر مزید المیہ یہ ہے کہ کئی والدین اسکولوں میں جا کر اساتذہ سے بدتمیزی کرتے ہیں، اُنھیں گالیاں دیتے ہیں اور یہ سب کچھ بچوں کے سامنے ہوتا ہے۔ جب استاد کی عزت بچوں کے دل سے ختم ہوجائے، تو پھر تعلیمی عمل ایک بے روح رسم بن کر رہ جاتا ہے۔
سوات جیسے مہذب معاشرے میں اساتذہ کی عزت کا یہ حال ہوچکا ہے کہ کئی قابل اساتذہ نے تدریس چھوڑ کر دیگر شعبوں کا رُخ کرلیا ہے۔
ایک اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جب دوسرے اسکول پانچ سو روپے فیس بڑھاتے ہیں، تو والدین اساتذہ سے سوال کرتے ہیں، جیسے یہ ان کی ذاتی ذمے داری ہو۔ اس طرزِ عمل نے اساتذہ کو اتنا دل برداشتہ کر دیا ہے کہ وہ یا تو تدریس سے دور ہو رہے ہیں، یا صرف وقت گزارنے کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔
یہ تمام عوامل مل کر تعلیمی نظام کی بنیادیں ہلا چکے ہیں۔ سوات بورڈ میں 40 ہزار طلبہ کا فیل ہونا ایک اتفاق نہیں، بل کہ یہ ایک دردناک حقیقت ہے جس کی جڑیں ہمارے معاشرتی رویے، والدین کی غفلت، طلبہ کی عدم دل چسپی اور تعلیمی اداروں کی کم زوری میں پیوست ہیں۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اس مسئلے کو سمجھیں اور اس کا حل تلاش کریں۔ والدین کو اپنی ذمے داریاں سنبھالنی ہوں گی، بچوں کی تربیت پر توجہ دینا ہوگی اور اساتذہ کو دوبارہ معاشرے میں وہ مقام دینا ہوگا جس کے وہ حق دار ہیں۔ اسکولوں کو کاروبار نہیں، بل کہ تربیت گاہ سمجھا جائے، اور تعلیم کو ڈگری نہیں، بل کہ کردار سازی کا ذریعہ بنایا جائے۔ ورنہ یہ فیل ہونے والے 40 ہزار طلبہ کل کو ایک ایسی نسل میں بدل جائیں گے، جو تعلیم یافتہ ہوگی، نہ باادب اور نہ باشعور۔
اور جب ایسا ہو گا، تو صرف سوات نہیں، بل کہ پورا معاشرہ اس کی قیمت چکائے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے