دینی مدارس اور جدید تقاضے

Blogger Muhammad Ishaq Zahid

دینی مدارس کی اہمیت اور اِفادیت ایک مسلمہ حقیقت ہے…… جس طرح ایک انسان کی جسمانی زندگی کے لیے خوراک، پانی اور دیگر مادی ضروریات لازم ہیں، بالکل اسی طرح ایک اسلامی معاشرے کے روحانی و اخلاقی بقا کے لیے دینی تعلیم ناگزیر ہے۔ انسان دو اجزا پر مشتمل ہے:جسم اور روح۔
جسم کی پرورش زمینی اشیا سے ہوتی ہے، جب کہ روح کو جِلا آسمانی ہدایات، شریعت اور وحی سے ملتی ہے۔ دینی مدارس وہ ادارے ہیں، جو اس روحانی تربیت کا فریضہ بہ خوبی انجام دے رہے ہیں۔
ماضیِ قریب کی بات ہے، جب دینی تعلیم کے ذرائع محدود تھے۔ رمضان میں ایک حافظِ قرآن کئی مساجد میں ختمِ قرآن کے لیے مدعو ہوتا تھا۔ علما کی تعداد محدود اور امام مسجد کے لیے دور دور سے بلایا جاتا تھا…… مگر آج ہر سال لاکھوں کی تعداد میں علما، حفاظ اور دینی علوم کے طلبہ، مدارس سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں۔ اب ہر گاؤں، قصبے، بل کہ اکثر ایک ہی گاؤں میں کئی کئی مدارس قائم ہیں، جو دینی علوم کی اشاعت میں مصروف عمل ہیں۔
یہ ترقی بلاشبہ باعثِ مسرت ہے، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم موجودہ چیلنجوں پر بھی سنجیدگی سے غور کریں۔ اگر یہی سلسلہ بغیر کسی جدید حکمتِ عملی کے چلتا رہا، تو مستقبل میں مدارس کے فارغ التحصیل علما کے لیے نہ صرف معاشی میدان محدود ہو جائے گا، بل کہ امامت اور تدریس کے مواقع بھی کم پڑ سکتے ہیں۔
ان مسائل کا حل یہی ہے کہ دینی مدارس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ جدید عصری علوم اور ہنر کو لازمی قرار دیا جائے۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ اب بھی اکثر مدارس میں دینی علوم کے ساتھ عصری تعلیم دی جا رہی ہے، لیکن افسوس کہ یہ نظام تمام مدارس میں رائج نہیں ہوسکا۔ یہی وہ پہلو ہے، جس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، تاکہ دینی مدارس اور علمائے کرام موجودہ حالات اور تقاضوں کے مطابق موثر کردار ادا کرسکیں۔
اگر ایک عالمِ دین جدید علوم سے بھی واقف ہو، تو وہ پرائیویٹ اسکول یا کوئی ہنر آموز ادارہ چلا سکتا ہے، جس سے نہ صرف اس کی معاشی ضروریات پوری ہوں گی، بل کہ وہ نسلِ نو کی بہتر تربیت بھی کر سکے گا۔ اس سے دو بڑے فائدے حاصل ہو سکتے ہیں: ایک طرف علمائے کرام کو باعزت روزگار میسر آئے گا، تو دوسری طرف نئی نسل دینی و دنیاوی دونوں پہلوؤں سے مضبوط بنیاد حاصل کرے گی۔
اس کے علاوہ اگر مدارس میں دینی و عصری علوم کے ساتھ ساتھ کسی ہنر، ٹیکنیکل تربیت یا فن کو سکھانے کا بندوبست کیا جائے، تو یہ بھی ایک فاضل طالب علم کو باوقار، خودمختار اور معاشی طور پر مستحکم زندگی گزارنے میں مدد دے گا۔
آخر میں یہی کہنا بہ جا ہے کہ دینی مدارس کی اصل روح اور مشن کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیں عصرِ حاضر کے تقاضوں کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔ دینی تعلیم کو جدید عصری علم، ہنر اور پیشہ ورانہ مہارت سے جوڑ کر ہم نہ صرف مدارس کے کردار کو وسعت دے سکتے ہیں، بل کہ علما کے وقار اور اِفادیت کو بھی حالاتِ حاضرہ سے ہم آہنگ کرسکتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے