چند روز قبل سوات کے علاقے چالیار (خوازہ خیلہ) میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے نہ صرف علاقائی فضا کو سوگوار کر دیا، بل کہ پورے ملک کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک معصوم بچہ، جو علم و تربیت کے لیے مدرسہ بھیجا گیا تھا، اپنے اُستاد کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بن کر زندگی کی بازی ہار گیا۔
اب، جب کہ وہ مدرس گرفتار ہو چکا ہے ، پولیس اور مقامی انتظامیہ نے عوام کو ’’مبارک باد‘‘ دی ہے…… مگر کیا اس ’’مبارک باد‘‘ کے پیچھے کوئی ایسی حقیقت بھی ہے، جسے خوشی کا عنوان دیا جا سکے؟ کیا ایک فرد کی گرفتاری ہمارے زخموں پر مرہم رکھ سکتی ہے…… یا یہ دراصل ایک گہری شکست کا اعتراف ہے…… شکست اُس سوچ کی، اُس نظام کی اور اُس سماجی غفلت کی جو ایسے واقعات کو جنم دیتی ہے؟
٭ یہ جیت نہیں، بل کہ ایک معصوم کی ہار ہے:۔ مدرس کی گرفتاری کو اگر معاشرے کی فتح قرار دیا جائے، تو یہ شدید خود فریبی ہوگی۔ معاشرتی جیت تب ہوتی جب بچوں کو تعلیمی اداروں میں مکمل تحفظ حاصل ہوتا، جسمانی سزا کا تصور ختم ہو چکا ہوتا، والدین اعتماد کے ساتھ اپنے بچوں کو اسکول یا مدرسے بھیج سکتے اور تعلیمی نظام شفقت، تربیت اور ذہنی آسودگی پر قائم ہوتا۔
یہ سانحہ درحقیقت معاشرتی نظام کی اُس ناکامی کا منھ بولتا ثبوت ہے، جس نے اُستاد جیسے مقدس رشتے کو خوف اور سزا کی علامت بنا دیا۔ یہ محض ایک شخص کی درندگی نہیں، بل کہ ایک پوری سوچ کی عکاسی ہے، جو آج بھی ہمارے تعلیمی اداروں میں غالب ہے۔
٭ متشدد ذہنیت کا خاتمہ…… صرف سزا سے ممکن نہیں:۔ اکثر اوقات ہم کسی مجرم کو سزا دے کر خود کو مطمئن کرلیتے ہیں کہ گویا انصاف ہوگیا…… لیکن کیا انصاف صرف سزا دینے سے مکمل ہو جاتا ہے؟ ہرگز نہیں۔
یہ واقعہ صرف ایک فرد کی سنگ دلی کا نتیجہ نہیں، بل کہ ایک پورے نظام کی بے حسی اور اُس سوچ کا تسلسل ہے، جس میں ’’تشدد‘‘ کو ’’تربیت‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ اسکول ہوں یا مدرسے، آج بھی بے شمار تعلیمی ادارے بچوں کو دباؤ، سزا اور خوف کے ماحول میں پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ وہ ذہنیت ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی آ رہی ہے جس میں اُستاد کا رعب و دبدبہ علم پر بھاری ہوتا ہے اور تربیت کی بنیاد محبت کے بہ جائے سختی پر رکھی جاتی ہے۔ اس ذہنیت کو بدلنے کے لیے ہمیں انفرادی اقدامات سے ہٹ کر نظامی اصلاحات کی طرف جانا ہوگا۔
٭ نظامی تبدیلی، وقت کی سب سے بڑی ضرورت:۔ اگر ہم واقعی ایک محفوظ، شفاف اور پُرامن تعلیمی ماحول چاہتے ہیں، تو ہمیں چند بنیادی اور فوری نوعیت کے اقدامات کرنے ہوں گے ، جیسے کہ
٭ تشدد کے خلاف قانون پر مکمل عمل درآمد:۔ تمام تعلیمی اداروں، بالخصوص مدارس میں جسمانی و ذہنی تشدد کے خلاف ’’زیرو ٹالرنس پالیسی‘‘ اپنائی جائے۔ قانون صرف کتابوں تک محدود نہ ہو، بل کہ اس پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا جائے ۔
٭ نفسیاتی ماہرین کی موجودگی:۔ ہر بڑے مدرسے اور اسکول میں ماہرِ نفسیات کا تقرر لازمی کیا جائے، تاکہ بچوں کی ذہنی کیفیت، جذباتی دباو اور سیکھنے کی مشکلات کو سمجھا جا سکے، اور اساتذہ کو بھی رویے کی تربیت دی جاسکے۔
٭ اساتذہ کی تربیت اور احتساب:۔ اُستاد محض علم بانٹنے والا نہیں، بل کہ کردار ساز بھی ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کو تدریسی اُصولوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی نفسیات، اخلاقیات اور نرمی سے تربیت دینے کے طریقوں کی تربیت دی جائے ۔
٭ بچوں کی آواز کو اہمیت دینا:۔ ہر ادارے میں ایک ایسا خود مختار اور محفوظ نظام ہونا چاہیے، جہاں بچے کسی بھی ظلم، ہراسانی یا بدسلوکی کی شکایت بلا خوف کر سکیں اور اُن کی بات کو سنا اور سراہا جائے ۔
٭ صرف انصاف نہیں، ذہنیت کی تبدیلی درکار ہے:۔ وہ معصوم بچہ اب ہم میں نہیں رہا، لیکن اُس کا جانا ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم صرف گرفتاری اور سزا پر اکتفا کرکے مطمئن ہو جائیں گے…… یا ہم واقعی اپنے نظام کو ایسا بنائیں گے جہاں اگلا بچہ، اگلا شاگرد، اگلا انسان، محفوظ ہو……؟
یہ واقعہ ایک موقع ہے تبدیلی کا، اصلاح کا، اور اپنی ذمے داری کے احساس کرنے کا۔ کیوں کہ اصل جیت تب ہوگی جب بچہ صبح خوشی سے اسکول یا مدرسہ جائے، جب والدین کو اُس کی حفاظت کی فکر نہ ہو، جب تعلیم، شفقت، محبت اور تربیت کے ساتھ دی جائے اور جب کسی بچے کی موت پر ہمیں ’’مبارک باد‘‘ نہ دینی پڑے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










