قارئینِ کرام، آپ نے اکثر ’’ریور پروٹیکشن آرڈیننس‘‘ (River Protection Ordinance) یا ’’ریور پروٹیکشن ایکٹ‘‘ (River Protection Act) کا نام ضرور سنا ہوگا، خاص طور پر ہر سال مون سون کے موسم میں جب ضلعی انتظامیہ تجاوزات کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کرتی ہے۔ ان آپریشنوں کے پیچھے جو بنیادی قانونی جواز پیش کیا جاتا ہے، وہ یہی ’’ریور پروٹیکشن آرڈیننس‘‘ یا ’’ایکٹ‘‘ ہے۔
تاہم، عوام میں اس ایکٹ کے حوالے سے ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ انتظامیہ کو دریا کے کنارے 200 فٹ تک کی تعمیرات کو بلا روک ٹوک گرانے کا اختیار حاصل ہے۔ باقی اس ایکٹ کے حوالے سے کچھ سمجھ بوجھ نہیں…… اور یہی کم علمی عوام کے ذہنوں میں اس قانون کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے۔ اس لیے مَیں نے ضروری سمجھا کہ اسے آسان اور سادہ زبان میں عوام تک اس کے اصل سپرٹ کے مطابق پیش کیا جائے، تاکہ اس کے مفہوم کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔
چوں کہ میری تحریر کا مقصد آپ کو زیادہ سے زیادہ اور ’’ٹو دا پوائنٹ‘‘ (To the Point) معلومات فراہم کرنا ہے، اس لیے مَیں نے ’’ریور پروٹیکشن آرڈیننس‘‘ کو نہ صرف تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے، بل کہ اس کے ساتھ اُن اہم قانونی اصطلاحات کی بھی وضاحت کی ہے، جو ہر ’’ایکٹ‘‘ یا ’’آرڈیننس‘‘ میں مخصوص انداز اور طریقۂ کار کے تحت استعمال ہوتی ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ مستقبل میں خود بھی کسی بھی قانونی ’’ایکٹ‘‘ یا ’’آرڈیننس‘‘ کو سمجھنے اور پڑھنے کے قابل ہوسکیں۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس آرڈیننس کی اصل اہمیت اُس وقت اُجاگر ہوئی، جب 1992ء میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے تباہ کن سیلاب آیا۔ مسلسل پانچ دن تک ہونے والی شدید بارشوں نے پورے ملک، خصوصاً خیبر پختونخوا میں وسیع پیمانے پر تباہی مچا دی۔ اس کے بعد بھی کئی بار سیلاب آئے، جن میں دریاؤں میں اچانک آنے والی طغیانی نے دریا کنارے قائم ہوٹلوں اور دیگر عمارتوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان طغیانیوں کے باعث متعدد مرتبہ سیاح پھنس جاتے، جس سے افسوسناک اور ناخوش گوار واقعات رونما ہوتے رہے۔
٭ ’’ایکٹ‘‘ اور ’’آرڈیننس‘‘ میں فرق:۔ سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ’’ایکٹ‘‘ اور ’’آرڈیننس‘‘ میں فرق کیا ہے؟ ’’ایکٹ‘‘ وہ قانون ہوتا ہے، جسے قومی یا صوبائی اسمبلی کی منظوری کے بعد صدر یا گورنر کے دست خط سے نافذ کیا جاتا ہے، اور جب تک اسے ختم یا تبدیل نہ کیا جائے، یہ مستقل قانون رہتا ہے…… جب کہ ’’آرڈیننس‘‘ ایک عارضی قانون ہوتا ہے، جو اس وقت جاری کیا جاتا ہے، جب اسمبلی کا اجلاس نہ چل رہا ہو، یا فوری قانون سازی کی ضرورت ہو۔ اسے صدر یا گورنر صوبہ جاری کرتے ہیں اور اس کی مدت صرف 90دن ہوتی ہے، جس کے بعد اگر اسمبلی اس کی توثیق نہ کرے، تو یہ خود بہ خود ختم ہوجاتا ہے۔
اسی بنیاد پر خیبر پختونخوا میں گورنر لیفٹیننٹ جنرل (ر) افتخار حسین شاہ نے 2002ء میں ’’ریور پروٹیکشن آرڈیننس‘‘ جاری کیا، جسے بعد ازاں خیبر پختونخوا اسمبلی نے "Khyber Pakhtunkhwa River Protection (Amendment) Act, 2014” کی صورت میں مستقل قانون میں تبدیل کیا۔ اُس میں وقت کے ساتھ چند ترامیم کی گئیں، مثلاً "NOC” کی واضح تعریف شامل کی گئی۔
٭ ریور پرٹیکشن آرڈیننس کا پس منظر:۔ کسی بھی قانون یا آرڈیننس کی تشکیل سے قبل اس کے پس منظر، محرکات اور اسباب کو بیان کیا جاتا ہے۔ قانونی مسودے کے اس ابتدائی حصے میں یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ کس نوعیت کے سماجی، ماحولیاتی یا انتظامی مسائل کی بنیاد پر اس مخصوص قانون کی ضرورت محسوس کی گئی؟ یہی تمہیدی بیان دراصل اس قانون کا سیاق و سِباق فراہم کرتا ہے اور اس کی اصل روح کو واضح کرتا ہے۔
قانونی اصطلاح میں ان تمہیدی جملوں کو "Whereas” کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ابتدائی عبارتیں ہوتی ہیں، جو قانون کے مقاصد اور اس کے نفاذ کی وجوہات کو واضح کرتی ہیں۔ "Whereas” کے بعد ہی اصل قانونی احکامات، دفعات اور عمومی پابندیاں بیان کی جاتی ہیں، جو قانون کا باقاعدہ اور نافذ العمل حصہ تصور کیے جاتے ہیں۔
اس آرڈیننس کے مطابق خیبر پختونخوا کے تمام دریا اور اُن سے نکلی معاون ندیاں اور نالے عوامی وسائل ہیں، جنھیں لوگ پینے کے پانی، آب پاشی، تجارتی سرگرمیوں ، ماہی گیری اور دیگر تفریحی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں، جو کہ انتہائی ضرورت کا حامل ہے۔ دریا اور ان سے نکلی ہوئی شاخیں صوبے کی معیشت اور ’’ایکو ٹورازم‘‘ (Ecotourism) کے لیے بے پناہ اہمیت کا حامل ہے۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور شہری آبادکاری، دریاؤں اور ندی نالوں پر مسلسل منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔
دریاؤں اور ان سے نکلی ہوئی معاون ندی نالوں کے ساتھ بغیر منصوبہ بندی کی تعمیرات، جو اکثر تجاوزات پر مبنی ہوتی ہیں، مختلف علاقوں میں جاری و ساری ہیں۔
یہ قیمتی معاشی اور ماحولیاتی وسائل ایسے ناقابلِ تلافی نقصان کے خطرے سے دوچار ہیں، جو عوام الناس کے مفاد کے خلاف ہے اور جسے روکنا بے حد ضروری ہے۔
اس لیے گورنر (خیبر پختونخوا) موجودہ حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس کی روک تھام کے لیے فوری اقدام اٹھانا ضروری سمجھتا ہے۔
٭ شارٹ ٹائٹل اور نفاذ:۔ ہر قانون، ایکٹ یا آرڈیننس کا ایک مخصوص اور سرکاری عنوان مقرر کیا جاتا ہے، تاکہ اسے آسانی سے قانونی اُمور میں بہ طور حوالہ استعمال کیا جاسکے۔ اس عنوان کو قانونی اصطلاح میں "Short Title” کہا جاتا ہے۔ زیرِ بحث قانون ابتدا میں ’’خیبر پختونخوا دریا تحفظ آرڈیننس، 2002ء‘‘ کے نام سے جاری کیا گیا تھا، تاہم 2014ء میں خیبر پختونخوا اسمبلی نے اسے باقاعدہ ترمیم کے بعد مستقل قانون کی شکل دیتے ہوئے منظور کیا، جس کے بعد اَب اس کا سرکاری عنوان ’’خیبر پختونخوا دریا تحفظ (ترمیمی) ایکٹ، 2014ء‘‘ ہے۔ لہٰذا اب اسے قانونی و انتظامی حوالوں میں ’’ایکٹ‘‘ کہا جائے گا، نہ کہ آرڈیننس۔
٭ نفاذ:۔ اس کے بعد قانون کے متن میں "Commencement” یعنی ’’نفاذ‘‘ کی شق شامل کی جاتی ہے، جس میں یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ یہ قانون کب سے اور کس طریقے سے نافذ العمل ہوگا۔ یہ حصہ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ قانون کی عمل داری کا آغاز کن تاریخوں یا کن حالات سے مشروط ہے اور اس کا دائرۂ کار کہاں تک ہوگا؟ ’’ریور پروٹیکشن آرڈیننس‘‘ کے مطابق، یہ قانون فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
٭ قانونی اصطلاحات کی تعریف:۔ اس کے بعد ہم آرڈیننس میں استعمال ہونے والی قانونی اصطلاحات کی تعریف کی طرف آتے ہیں۔ کیوں کہ قانون کی شقوں کو درست طور پر سمجھنے کے لیے یہ جاننا بے حد ضروری ہوتا ہے کہ ہر اصطلاح کا مطلب کیا ہے؟
ہر ایکٹ، آرڈیننس یا قانونی دستاویز میں ان اصطلاحات کی تعریف پہلے ہی سے واضح کی جاتی ہے، تاکہ قانون کی غلط تشریح سے بچا جاسکے اور کسی بھی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔ اس سے قانون کے دائرۂ کار، اطلاق اور مفہوم کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے اور تمام متعلقہ فریق ایک متعین مفہوم پر متفق رہتے ہیں۔
اس تحریر میں یہ چیزیں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو نیچے بیان کی گئی اس آرڈیننس کی شقیں صحیح طریقے سے سمجھ آسکیں۔
٭ مجاز افسر:۔ اس آرڈیننس میں ’’مجاز افسر‘‘ سے مراد وہ افسر ہے، جسے حکومت اس آرڈیننس کے تحت اختیارات کے ساتھ مجاز قرار دے۔ حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مختلف علاقوں کے لیے مختلف مجاز افسران بھی مقرر کرے۔
٭ کمرشل عمارت:۔ اس سے مراد وہ عمارت یا جگہ ہے، جو جزوی یا مکمل طور پر تعمیر شدہ ہو اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہو رہی ہو یا تجارتی سرگرمیوں کی کے لیے استعمال کیے جانے کی نیت سے بنائی گئی ہو، اس میں ہوٹلز، ریسٹورنٹس، دکانیں، دفاتر، گودام، صنعتی یونٹس اور پروسیسنگ یونٹس وغیرہ شامل ہیں۔
٭ تجاوزات:۔ تجاوزات سے ایسی غیر قانونی قبضہ یا تعمیر ہے، جو سرکاری یا مقررہ حدود یا دریا کی زمین کے اوپر تعمیر کی گئی ہوں۔
٭ ہائی واٹر لمٹ:۔ اس سے مراد وہ بلند ترین سطح ہے، جو دریا معمول کے سیلابی موسم میں اپنے عروج پر پہنچ کر حاصل کرتا ہے، جسے موقع پر نشان زد کیا گیا ہو اور باضابطہ طور پر اس کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہو۔
٭ ’’این اُو سی‘‘:۔ "NOC” سے مراد محکمۂ آب پاشی کی طرف سے جاری کردہ ’’عدم اعتراض کا سرٹیفکیٹ‘‘ ہے۔
٭ ’’ٹری بیوٹس‘‘:۔ "Tributaries” سے مراد دریا اور ندی نالوں سے نکلی وہ شاخیں ہیں، جو پانی کے بہاو میں معاون ثابت ہوتی ہیں، یا حصہ ہوتی ہیں، یا شامل ہو کر بہتی ہیں، جیسا کہ حکومت اس آرڈیننس کے تحت نوٹیفکیشن کے ذریعے قرار دے۔
٭ ’’کیچ منٹ ایریا‘‘:۔ "Catchment Area” سے مراد وہ زمین ہے جو بارش اور دیگر برسنے والی پانی کو قدرتی طور پر ذخیرہ کرتی ہے ، اور اضافی پانی کو یا تو سطحی طور پر یا زیرِ زمین اخراج کی صورت میں دریا میں شامل کرتی ہے ۔
٭ دریا:۔ دریا سے مراد وہ مستقل آبی ذخائر ہیں جو ’’کیچ منٹ ایریاز‘‘ سے پانی وصول کرتے ہیں۔ اس میں ندی نالے، قدرتی اور انسانی ساختہ آبی ذخائر بھی شامل ہیں۔
٭ ٹرائل کورٹ:۔ اس سے مراد فرسٹ کلاس جوڈیشل مجسٹریٹ کی وہ عدالت ہے، جو اس آرڈیننس کے تحت جرائم کی سماعت کی مجاز ہو۔
عمومی پابندیاں (General Prohibitions):
اب ہم آرڈیننس کی اُن شقوں کی طرف آتے ہیں، جنھیں "General Prohibitions” کہا جاتا ہے۔ اس اصطلاح سے مراد وہ عمومی پابندیاں ہیں، جو قانون کے تحت تمام افراد پر یک ساں طور پر لاگو ہوتی ہیں۔ اس میں عوامی سرگرمیوں پر ایک خاص پابندی عائد کی جاتی ہے۔ اس آرڈیننس میں پابندیوں کا مقصد دریا کے تحفظ کو یقینی بنانا اور غیرقانونی تجاوزات کو کو روکنا ہے۔
دریاؤں یا ان کے معاون ندی نالوں کے دونوں جانب ’’ہائی واٹر لمٹ‘‘ سے کناروں (Lay Off Land) کے ساتھ ناپی گئی دو سو فٹ کی حدود کے اندر، یا دریا کے کناروں کے درمیان واقع کسی بھی جگہ پر، کسی بھی تجارتی یا غیر تجارتی سرگرمی سے وابستہ عمارت کی تعمیر، یا کوئی بھی ترقیاتی کام انجام دینا ممنوع ہے۔
دریا یا اس کے معاون ندی نالوں میں کسی بھی مادہ کو بہ راہِ راست یا بلاواسطہ طور پر اس مقدار میں ڈالنا، رکھنا یا خارج کرنا، جو حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً جاری کردہ ماحولیاتی معیار (NEQS) سے زیادہ ہو، ممنوع ہے۔
دریاؤں یا ان کے معاون ندی نالوں میں کسی بھی ٹھوس کچرے، خطرناک فضلے یا دیگر اضافی مادوں کو، جنھیں حکومت نے مخصوص کرکے باقاعدہ طور پر نوٹیفائی کیا ہو، بہ راہِ راست یا بلاواسطہ طور پر پھینکنا یا تلف کرنا ممنوع ہے۔
حکومت اس آرڈیننس کے تحت کسی دریا یا اس کی شاخوں کے دونوں جانب تعمیرات یا دیگر ترقیاتی کاموں پر پابندی یا ان کے ضابطے کے لیے مقررہ حدود میں اضافہ کر سکتی ہے۔
دریاؤں یا اس سے جڑے معاون ندی نالوں کے دونوں جانب ’’ہائی واٹر لمٹ‘‘ سے ناپی گئی 200 فٹ سے لے کر 1500 فٹ تک کا علاقہ ’’صوبائی کنٹرول ایریا‘‘ کہلائے گا، جہاں تعمیرات یا دیگر ترقیاتی سرگرمیاں صرف اس اراضی کے استعمال اور زوننگ منصوبوں کے مطابق کی جائیں گی جو ذیلی دفعہ (1) کے تحت تیار کیے گئے ہوں۔
حکومت کسی بھی دریا یا اس کے کسی حصے کے ’’کیچ منٹ ایریا‘‘ میں عمارتوں کی تعمیر پر قابو پانے کے لیے ضابطے بناسکتی ہے، یا کسی دوسرے نافذ العمل قانون کے تحت موجودہ بلڈنگ کنٹرول کے ضوابط کو نافذ کرسکتی ہے۔
کوئی بھی ادارہ یا فرد جو دریاؤں، ندیوں، نالوں، نکاسئی آب کے راستوں یا پانی کے دیگر ذرائع پر پُل، پُل نما راستے، گزرگاہیں یا سیلاب سے بچاو کے تعمیراتی کام کرنا چاہے، اسے کام شروع کرنے سے پہلے این اُو سی (NOC) حاصل کرنا لازمی ہوگا۔
اگر اس ایکٹ کا مزید جائزہ لیا جائے، تو واضح ہوتا ہے کہ یہ دریاؤں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مرتب کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی ایسی شِق موجود نہیں، جو مفادِ عامہ کے خلاف ہو، بل کہ یہ قانون دریاؤں کے قدرتی نظام کو موثر تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اور بلاشبہ موجودہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔
تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خود حکومتی ادارے اس ایکٹ پر موثر عمل درآمد میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اس قانون کے تحت سول انتظامیہ کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ دریاؤں اور ان سے جڑی معاون ندی نالیوں کو ہر قسم آلودگی سے محفوظ رکھے…… لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ متعدد مقامات پر سول انتظامیہ خود دریا کے کنارے واقع زمینوں کو لیز پر دے کر انھیں گندگی پھینکنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات دریاؤں کی زمین کو سرکاری نوٹیفکیشن کے ذریعے باقاعدہ ’’ڈمپنگ اسپاٹ‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے، جو کہ اس قانون کی کھلی خلاف ورزی اور اس کی صریح تضحیک ہے۔
مزید برآں، ہمارے ہاں "Solid Waste Management” کا کوئی منظم نظام موجود نہیں۔ بیش تر شہری اور دیہی علاقوں کی نکاسی بہ راہ راست انھی دریاؤں کی طرف کردی جاتی ہے، جو ماحولیاتی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ حالاں کہ اس ایکٹ کے تحت حکومت کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ نکاسئی آب، سیوریج اور کچرے کے لیے متبادل اور سائنسی بنیادوں پر مبنی متبادل نظام متعارف کروائے، جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک مربوط نظام موجود ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے، ہماری حکومت نے صرف قانون سازی تک خود کو محدود کر رکھا ہے، جب کہ عملی اقدامات اور عمل درآمد مکمل طور پر نظرانداز کر دیے گئے ہیں، جو کہ اوپر بیان کیے گئے ریور پرٹیکشن ایکٹ کے ’’سیکشن چھے‘‘ کی صریح خلاف ورزی ہے۔
دوسری جانب، اس ایکٹ کے ’’سیکشن چھے‘‘ کے مطابق ریاستی اداروں کی یہ بنیادی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ دریا کے کنارے دو سو فٹ کی حدود میں کسی بھی قسم کی تجاوزات کو روکیں اور اس پورے علاقے کی باقاعدگی سے نگرانی کریں، تاکہ کوئی شخص اس قانون کی خلاف ورزی نہ کرسکے…… مگر انتظامیہ مسلسل ناکام نظر آتی ہے۔ جب عوام تجاوزات کرتے ہیں، تب کھل عام رشوت لی جاتی ہے اور اُنھیں ’’این اُو سیز‘‘ تک دیے جاتے ہیں، لیکن جب کوئی سیلاب میں کوئی ناخوش گوار واقعہ رونما ہوتا ہے، تو بس عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے رسمی کارروائی کی جاتی ہے۔ اس کارروائی کا حدف محض غریب یا وہ لوگ ہوتے ہیں، جو کوئی خاص اثر و رسوخ نہیں رکھتے۔ طاقت ور اور سیاسی لوگوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا جاتا۔ نیز صوبائی کنٹرول ایریا میں کوئی این اُو سی ابھی تک کسی کے پاس موجود نہیں ۔
قارئین! کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ خود وہ لوگ جو قانون نافذ کرنے کے ذمے دار ہیں……جیسے اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور کمشنر صاحبان…… اپنے دفاتر میں بیسن تک کا پانی جب استعمال کرتے ہیں، تو وہ پانی کہاں جاتا ہے؟ حقیقت میں وہ پانی قریب کسی نہر کے ذریعے دریائے سوات میں شامل ہوجاتا ہے، جو کہ ریور پروٹیکشن ایکٹ کے ’’سیکشن چھے‘‘ کے تحت ایک سنگین مجرمانہ فعل ہے۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ صرف ادارے ہی نہیں، بل کہ ہم سب، بہ طور شہری، اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ کیوں کہ ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی صورت میں دریاؤں کو آلودہ کرنے کا سبب بن رہا ہے…… اور آنے والی نسلوں کو اس عظیم قدرتی وسائل سے محروم کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
اس لیے میری ذاتی رائے میں سب سے پہلا اور اہم قدم یہ ہونا چاہیے کہ دریاؤں سمیت تمام ندی نالوں کو سیوریج اور گندے پانی سے محفوظ رکھا جائے۔ سیوریج کے لیے متبادل نظام تشکیل دیا جائے اور ابتدائی طور پر ایک تحصیل کو بہ طور ماڈل منتخب کرکے وہاں نکاسئی آب کا مربوط نظام بنایا جائے، جہاں باقاعدہ پائپ لائن اور سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ موجود ہو۔
وہ ہوٹلز یا ریسٹورنٹس جو ریور پروٹیکشن ایکٹ کے ’’سیکشن چھے‘‘ کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اُنھیں باضابطہ طور پر خطرناک قرار دیا جائے اور اُن کی ایک فہرست جاری کی جائے، تاکہ سیاح ان سے دور رہیں۔
فی الحال ہماری ساری توجہ دریاؤں کو آلودگی سے محفوظ رکھنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ کیوں کہ فرض کریں کہ آج ہم دریائے سوات سے تمام تجاوزات ہٹا بھی دیں، لیکن اگر چند سال بعد اس کا پانی اس قدر آلودہ ہو جائے کہ وہ پینے، آب پاشی یا تفریح کے قابل ہی نہ رہے اور اس کا حال بھی دریائے راوی جیسا ہو جائے، تو پھر ان کوششوں کا کیا فائدہ؟
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دریاؤں اور ان سے جڑے تمام ندی نالوں کو فوری طور پر صاف کیا جائے اور سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس کے ذریعے گندے پانی کے اخراج کو مکمل طور پر بند کیا جائے، تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے صاف پانی اور صحت مند ماحول کو یقینی بنایا جاسکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










