مدارس، نفرت نہیں… اصلاح کا وقت ہے!

Blogger Ikram Ullah Arif

چالیار کا بدترین واقعہ پیش آیا، تو انتہاؤں کے سفر نے پھر سے نئی کروٹ لی۔ ہر ہما و شما نے لٹھ اُٹھا کر دینی مدارس کو نشانے پر لے لیا۔ میڈیا کو تو سنسنی کی تلاش تھی؛ یوں رپورٹرز اور سوشل میڈیائی غازیوں نے گویا ’’پانی پت‘‘ کا معرکہ برپا کر دیا۔
کسی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مدارس کو ریاستی تحویل میں لیا جائے۔ کسی نے کہا کہ ملزمان کو برسرِ عام پھانسی دی جائے۔ ایک آواز یہ بھی سنائی دی کہ مدارس ’’افعالِ مکروہ‘‘ کے مراکز بن چکے ہیں۔ کسی نے تو یہ کَہ کر حد ہی کر دی کہ فرحان کے قاتل صرف نام زد افراد نہیں، بل کہ اُس کے والدین بھی برابر کے ذمے دار ہیں۔
ملک بھر میں جس جس کو بچپن میں کسی قاری سے مار پڑی تھی، اُس نے اِس سانحے کو موقع جان کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی اور مدارس کو لگام ڈالنے کا پرزور مطالبہ دہرایا۔
ان پرجوش نعروں اور دعوؤں میں کہیں معقولیت کی رمق تک نظر نہ آئی، نہ کسی نے کوئی قابلِ عمل حل ہی پیش کیا۔
آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک بھر میں قائم ہزاروں مدارس کو بند کر دیا جائے اور یہ بھی کہاں ثابت ہوا کہ ہر مدرسے میں تشدد ہوتا ہے؟
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ تقریباً ہر معاملے میں جارحانہ اور عمومیت پسند انداز اختیار کیا جاتا ہے۔
یاد ہوگا، چند مہینے قبل ملاکنڈ یونیورسٹی میں ہراسانی کا ایک واقعہ رپورٹ ہوا تھا۔ تحقیقات تو دور، الزام ہی لگا تھا کہ خود ساختہ صحافیوں اور خودنمائی کے شوقین سیاست دانوں نے اُستاد کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اساتذہ پر الزامات کی بازگشت ہر طرف پھیل گئی۔ تفتیش سے پہلے ہی متعلقہ استاد کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔ مذہبی حلقوں نے اسی بنیاد پر یونیورسٹیوں اور عصری تعلیمی اداروں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ انھیں ’’گناہ کے مراکز‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کی، تاکہ عوام کو عصری تعلیم سے بدظن کیا جاسکے۔
تب بھی ہماری طرف سے یہی عرض کیا گیا تھا کہ تحقیقات سے پہلے کا واویلا محض پراپیگنڈا ہے۔ پھر وہی ہوا…… جرم ثابت نہ ہو سکا۔ اُستاد بری ہوگئے، مگر الزامات لگانے والوں نے آج تک اپنی زیادتی پر معافی مانگنے کی زحمت تک گوارا نہ کی۔
اب بھی وہی صورتِ حال ہے…… ایک مدرسے میں انسانیت سوز واقعہ ہوا۔ دو ملزمان گرفتار ہوچکے۔ باقی بھی گرفتار ہوں گے۔ عوامی مطالبہ بالکل درست ہے کہ مجرموں کو عبرت ناک سزا دی جائے، مگر اس ایک واقعے کو بنیاد بنا کر پورے ’’مدرساتی نظام‘‘ کو ہدفِ تنقید بنانا محض جارحانہ بیان بازی ہی ہے۔
یہ فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ اس وقت ملک بھر کے ہزاروں مدارس میں لاکھوں طلبہ تقریباً مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کا ایک تناظر یہ ہے کہ بیش تر مدارس بعض نام نہاد مولویوں کے لیے معیشت کا ذریعہ ہیں، جہاں دین کی اصل روح سے ہٹ کر فرقہ وارانہ اور مسلک پرستانہ نفرت آمیز رموز سکھائے جاتے ہیں…… لیکن ایک دوسرا تناظر بھی ہے کہ کیا ریاست اور حکومت ان لاکھوں نوجوانوں کے مستقبل سے بے خبر رہ سکتی ہے؟
کیا مدارس میں پڑھنے والے پاکستانی نہیں؟
کیا ان کا اچھا یا بُرا مستقبل ریاست کے لیے معنی نہیں رکھتا؟
اگر یونیورسٹیوں میں انسدادِ ہراسانی کے سخت قوانین موجود ہیں، تو مدارس اس سے مستثنا کیوں ہوں؟
تشدد صرف جسمانی نہیں، بل کہ جنسی، دماغی اور نفسیاتی نوعیت کا بھی ہو سکتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ چالیار کے واقعے کو نفرت کا جواز بنانے کے بہ جائے محبت اور اصلاح کی بنیاد بنایا جائے۔
مدارس میں سنجیدہ اصلاحات کا آغاز کیا جائے، تاکہ آیندہ کسی قسم کا تشدد نہ صرف ناممکن، بل کہ ناقابلِ تصور بن جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہاں زیرِ تعلیم بچوں کی شخصیت کو کم زور اور داغ دار ہونے سے بچایا جا سکے۔
یہ بھی ہماری بدقسمتی ہی ہے کہ ہر واقعے کے بعد جذباتی بیانات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے، مگر وقت گزرنے پر غلطیوں کا پرنالہ وہیں گرتا ہے، جہاں ہمیشہ گرتا چلا آیا ہے۔
آئیے! اس واقعے کو بنیاد بناکر معقولیت، تدبر اور انصاف کے ساتھ ایسے عملی اقدامات کریں، جو آیندہ ان غلطیوں کا سدِباب بن سکیں۔
کچھ اپنے حصے کی شمع بھی تو جلاؤ، خدا کے بندو……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے