سب کو معلوم ہے کہ گذشتہ ایک سال سے گورکین کالام تا درال پاؤر ہاؤس (بحرین) بجلی کی ایک بڑی لائن بچھائی جارہی ہے۔ شروع میں اس کے خلاف کافی مزاحمت رہی اور لوگوں میں بے چینی بھی رہی۔ اس سلسلے میں مقامی طور پر کئی اہم اجلاس بھی ہوئے۔ جولائی کے اواخر میں یہاں سے چند افراد نے ایم پی اے میاں شرافت علی سے ملاقات کی۔ اُسی ملاقات کی روشنی میں ایم پی اے صاحب نے 16 جولائی 2025ء کو صوبائی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی کو خط لکھا کہ کمیٹی کا اجلاس اس سلسلے میں بلائیں۔ اس خط میں ایم پی اے نے ملک نوازش علی، ملک بخت بلند اور چیئرمین خورشید علی کا حوالہ دے کر کمیٹی کو لکھا کہ وہ اس پر اجلاس بلائیں، تاکہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے۔
ایم پی اے صاحب کے کہنے پر اس کمیٹی کا اجلاس 25 جولائی 2025ء کو صوبائی اسمبلی سکریٹریٹ میں رکھا گیا۔ یہاں سے مشاورت سے تین افراد بخت بلند، نوازش علی اور بخت آمین کریمی کو چنا گیا کہ وہ اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔ تاہم نوازش علی اور بخت آمین کریمی مصروفیات کی وجہ سے اس اجلاس میں شرکت کے لیے پشاور نہ جاسکے اور بخت بلند کے ساتھ فضل واحد اور راقم پشاور چلے گئے۔
کل (25 جولائی) کو صبح 11 بجے مذکورہ اجلاس صوبائی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں منعقد ہوا، جس میں 10 ایم پے ایز، ’’پیڈو‘‘ (پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن) اور دیگر محکموں کے افسران شریک تھے۔ ہمارے ایم پی اے میاں شرافت علی اس اجلاس میں ’’وٹس ایپ‘‘ کے ذریعے شریک ہوئے کہ اُنھوں نے ایمرجنسی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کی وجہ سے مدین آنا تھا۔
چوں کہ ایسے اجلاسوں میں عام لوگوں کی شرکت مشکل ہوتی ہے، لہٰذا بڑی مشکل سے اور ایم پی اے صاحب کی مداخلت کے بعد ہم تینوں بھی اس اجلاس میں بیٹھ گئے۔ صوبائی اسمبلی کے سیکریٹری نے پہلے ہمیں کچھ کہنے سے منع کردیا، تاہم اپنی نیندین حرام کرکے ہم وہاں گئے تھے، لہٰذا کمیٹی کے چیئرمین کو چھٹیاں لکھ لکھ کر بولنے کی اجازت چاہی۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ کیا کہا جائے؟ کیوں کہ مختلف گاؤں کے لوگوں نے اور افراد نے اُن پولز/ ٹاؤرز کو اپنی اپنی زمین پر لگوانے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ پورے علاقے کا اس بارے میں کسی ایک نکتے پر اتفاق نہیں۔ لہٰذا بولنے کی اجازت ملنے پر بہ مشکل دو تین باتیں ہی کَہ پائے۔
مثلاً:
٭ اُن کھمبوں اور تاروں کو آبادیوں اور زرعی زمینوں سے دور رکھا جائے۔
٭ لوگوں کو زمینوں کی اچھی قیمت دی جائے۔
٭ چند دور دراز گاوؤں اور محلوں جیسے ’’لائیکوٹ بالا‘‘، ’’چُودُوگُن‘‘، ’’دھوان‘‘، ’’مترکُن‘‘، ’’چھم گڑھی‘‘، ’’کیدام‘‘، ’’کند‘‘، ’’توروال‘‘ وغیرہ کی سڑکوں کو بہتر کیا جائے، یا یہاں اچھی سڑکیں بنائی جائیں۔ کیوں کہ ان علاقوں میں یہ ٹاؤر لگوانے کے لیے ویسے بھی کچھ کچی سڑکیں بنائی جاتی ہیں۔
وہاں یہ بھی کہا گیا کہ متعلقہ ٹھیکے دار کمپنی ’’نیٹراکان‘‘ (Netracon) اپنے سی ایس آر کا 2 فی صد ان سڑکوں پر لگائے۔ یہ 2 ارب روپے کا منصوبہ ہے اور 2 فی صد سی ایس آر 16 کروڑ روپے بنتا ہے۔ اس پر جواب دیا گیا کہ کمپنی کے ساتھ ایسا کچھ اس معاہدے میں نہیں لکھا گیا…… تاہم اس کمیٹی کے چیئرمیں ایم پی اے داؤد شاہ اور ایم پی اے ارباب صاحب نے متعلقہ محکموں کو ہدایات جاری کردیں کہ وہ مقامی علاقے کو زیادہ سے زیادہ فائدے دیں۔
کمیٹی کے چیئرمین نے ایک سب کمیٹی بھی بنائی اور ساتھ کہا کہ سٹینڈنگ کمیٹی کااس پر اگلا اجلاس 12 اگست 2025ء کو ہوگا۔
قارئین! اس ٹرانس میشن لائن پر محمد رفیق سابق ناظم بحرین اور دیگر لوگوں نے کافی کام بھی کیا ہے۔ بتایا گیا کہ اس سلسلے میں مقامی آبادی کی ایک بڑی نمایندہ کمیٹی بھی بنائی گئی تھی۔ لہٰذا بہتر ہے کہ متعلقہ افراد اس کمیٹی کو فعال اور منظم کریں اور 12 اگست کے اجلاس کے لیے کوئی متفقہ لائحۂ عمل بنالیں اور پھر اس اجلاس میں باہمی مشاور ت سے 4، 5 بندے شرکت کریں۔
اب ٹرانس میشن لائن منصوبے کی چیدہ چیدہ باتیں ملاحظہ ہوں۔
٭ گورکین تا درال پاور ہاؤس کُل 171 ٹاؤر لگتے ہیں۔
٭ زیادہ تر ٹاؤر دریا کے دائیں (مغربی طرف) لگیں گے۔
٭ یہ 8 ارب روپے کا منصوبہ ہے۔
٭ ابھی تک 10 فی صد سے بھی کم کام ہوا ہے۔
٭ دسمبر 2026ء تک اس کو مکمل کرنا ہے۔
٭ یہ 132 تا 220 کے وی کی لائین ہوگی۔
٭ اس کی تاریں زمین سے 16 میٹر یعنی کوئی 56 فٹ اونچی ہوں گی۔
٭ اس منصوبے کا ٹھیکہ نیٹراکان کمپنی کے پاس ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










