چلتے پھرتے تابوت

جولائی کی ایک عام سی دوپہر، بحرین سے مینگورہ کی جانب میرا سفر اُس وقت غیر معمولی اذیت کا شکار ہوگیا، جب مَیں بحرین اڈے پر کھڑی ایک ہائی ایس کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بہ ظاہر سب کچھ معمول کے مطابق لگ رہا تھا۔ 15 سیٹوں والی گاڑی میں 15 سواریاں اپنی اپنی نشستوں پر براجمان تھیں اور ڈرائیور سفر کے لیے تیار تھا…… لیکن یہ تو محض ابتدا تھی۔ جیسے ہی گاڑی نے پہیوں کو حرکت دی، منظر بدلنے لگا۔ گاڑی رُکتی، چند مزید سواریاں چڑھتیں، پھر کچھ اور…… اور دیکھتے ہی دیکھتے ہائی ایس میں پندرہ سے زائد افراد چھت پر چڑھا دیے گئے۔ جس گاڑی میں 15 افراد کی گنجایش تھی، وہاں اب 30 لوگ تھے، کچھ پیچھے لٹک کر اور کچھ چھت پر تھے۔
یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ پاکستان کے بالائی علاقوں، خصوصاً خیبر پختونخوا کے سیاحتی وادیوں میں یہ ایک روزمرہ کی حقیقت ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ ہم نے اس غیر انسانی رویے کو معمول سمجھ لیا ہے، اور شاید یہی خاموشی سب سے بڑا جرم ہے ۔
آمدم برسرِ مطلب، جس ہائی ایس میں بیٹھا تھا، وہ گویا ایک چلتا پھرتا تابوت بن چکی تھی۔ اندر کی سیٹوں پر دبک کر بیٹھے لوگ، دروازے کے ساتھ گٹھریوں کی مانند ٹھونسے گئے مسافر اور چھت پر جھولتے انسان یہ سب کچھ صرف کرایہ بڑھانے کی لالچ میں ہو رہا تھا۔ کنڈکٹر ہر سوار کو جیسے شکار سمجھ کر لپکتا۔ ڈرائیور کی ایک ہی منطق: ’’سیٹر سواریوں میں فائدہ نہیں ہوتا!‘‘
یہ جملہ دراصل اُس پوری حرص، بے حسی اور اخلاقی تنزلی کا ترجمان ہے، جس میں ہمارا ٹرانسپورٹ کا نظام جکڑا ہوا ہے۔ یہ صرف گاڑیوں میں زیادہ سواریوں کو بھرنے کی بات نہیں، یہ انسانی جان کی بے توقیری، انسانی حرمت کی پامالی اور قانون اور ضمیر کی کھلی تذلیل ہے۔
٭ پولیس کی موجودگی، مگر قانون کی غیر موجودگی:۔ مدین پُل پر ٹریفک پولیس اہل کار کھڑے تھے۔ گاڑی ان کے سامنے سے گزری اور اُنھوں نے گاڑی روکی، نہ سوال کیا اور نہ کوئی تاثر ہی دیا۔ گویا اُنھیں سب کچھ دکھائی دے رہا تھا، مگر اُن کی آنکھوں پر قانونی اندھے پن کا پردہ پڑ چکا ہو۔ شاید اُن کی جیبیں پہلے ہی وزنی ہوچکی تھیں، یا شاید یہ معمول کی کارروائی تھی، جس پر سوال اُٹھانا اُن کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے ۔
یہ وہ نکتہ ہے جہاں ریاستی مشینری کی خاموشی ’’فلائنگ کوچ مافیا‘‘ کی طاقت بن جاتی ہے۔ عوام کی بے بسی، انتظامیہ کی غفلت اور نظام کی مردہ روح مل کر ایک ایسا گٹھ جوڑ بناتے ہیں، جو ہر روز سیکڑوں جانوں کو خطرے میں ڈالتا ہے اور جب کوئی حادثہ ہوتا ہے، تو ہم اُسے اللہ کی مرضی کَہ کر قاتل کو معاف کر دیتے ہیں۔
٭ ایک بے بس مسافر کی پکار:۔ میرے برابر میں بیٹھا ہوا ایک نوجوان، جو مردان کا رہایشی تھا، بار بار ڈرائیور سے درخواست کر رہا تھا کہ گاڑی تیز چلائے، کیوں کہ اُسے ایمرجنسی تھی۔ اُس کے چہرے پر گھبراہٹ، بے چینی اور لاچاری صاف نظر آ رہی تھی…… لیکن ڈرائیور نے ہر بار ایک ہی رٹا رٹایا جملہ دہرایا: ’’سیٹروں میں فائدہ نہیں!‘‘
یہ جملہ میرے ذہن میں ایک سوال چھوڑ گیا: ’’کیا ہم انسان ہیں یا محض ایک کرایہ…… قانون کہاں ہے؟‘‘
سوال یہ ہے کہ کیا موٹروے پولیس یا ضلعی انتظامیہ ان غیرقانونی فلائنگ کوچز سے واقف نہیں، کیا عوام کی جان کی حفاظت کی کوئی ذمے داری حکومتی اداروں پر عائد نہیں ہوتی، کیا ہر بار حادثے کے بعد صرف فاتحہ پڑھ کر، لعن طعن کر کے ، اور کچھ دیر کے لیے افسوس کا اظہار کر کے ہم اپنی ذمے داری پوری کر لیتے ہیں؟ یہ تلخ سوالات کسی اخبار کے صفحے یا ویب سائٹ تک محدود نہیں رہنے چاہییں۔ انھیں ضمیر پر چوٹ بن کر اُترنا چاہیے۔
٭ خاموشی سب سے بڑا جرم:۔ ہم سب جو ان فلائنگ کوچز میں بیٹھتے ہیں، جو ’’اوور لوڈنگ‘‘ دیکھ کر بھی لب نہ کھولتے، جو اپنے وقت، صحت اور جان کے ساتھ سمجھوتا کرلیتے ہیں، ہم سب اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ خاموشی ہی ہے جو اس ’’مافیا‘‘ کو مزید طاقت ور بناتی ہے، قانون کو مفلوج کرتی ہے اور حادثوں کو مقدربنا دیتی ہے۔
٭ حل کیا ہے؟:۔ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں، تو ہمیں درجِ ذیل اقدامات پر عمل درآمد کرنا ہوگا:
٭ اوورلوڈنگ کی صورت میں سوشل میڈیا پر تصاویر، ویڈیوز شیئر کر کے عوامی دباو بنائیں۔
٭ ضلعی انتظامیہ، موٹروے پولیس اور ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو شکایات رجسٹر کروائیں۔
٭ سفری مہمات میں شامل طلبہ اور نوجوان اپنی تنظیمی قوت استعمال کرکے شعور اُجاگر کریں۔
٭ صحافی برادری، کالم نگار اور سوشل ایکٹیوسٹ اس معاملے پر مستقل آواز بلند کریں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے