’’کریس‘‘ کا دل کش گاؤں، سکردو سے تقریباً 60 کلومیٹر آگے اور دریائے سندھ پر بنے ’’چھومدو پل‘‘ کو کراس کرکے آتا ہے۔ سکردو سے یہاں تک پہنچنے کے لیے تقریباً 2گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
یہ وہی مقام ہے، جہاں پر دریائے شیوک اوپر سے آ کر دریائے سندھ میں ملتا ہے۔
چھومدو پل سے تھوڑا آگے دریائے شیوک پر ایک پل بنایا گیا ہے، جسے کراس کرکے دریا کی دوسری جانب یہ انتہائی خوب صورت گاؤں آتا ہے۔
اس گاؤں کو اپنی خوب صورتی دکھانے کے لیے کوئی ذاتی تگ و دو نہیں کرنا پڑتی، بل کہ کسی بھی سیاح کی اس پر پہلی نظر پڑتے ہی، وہ ’’ہیپناٹائز‘‘ (Hypnotize) ہو کر خود بہ خود رُک جاتا ہے……جی ٹی روڈ تے بریکاں لاکے۔
کیوں کہ اس گاؤں میں بنے مکانات کا طرزِ تعمیر، اُن کی چمک دمک اور اُن کا محلِ وقوع ہی کچھ ایسا ہے کہ اُن کی جاذبیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
گرچہ تبت کی کوئی سرحد اب سکردو سے نہیں ملتی، بل کہ سکردو اور تبت کے درمیان لداخ کا علاقہ آتا ہے، مگر چوں کہ یہ سارا علاقہ ایک لمبے عرصے تک تبت کا حصہ رہا ہے، اس لیے اس سارے علاقے پر تبت کے طرزِ تعمیر کے اثرات سب سے نمایاں ہیں۔ خاص طور پر خپلو کا علاقہ جو ایران، کشمیر، لداخ اور تبت کے زیرِ اثر رہا ہے۔ اس لیے اس سارے علاقے میں اُن علاقوں کے طرزِ تعمیر کا بہت اثر ہے۔
’’کریس‘‘ چوں کہ دریائے شیوک کے دوسرے پار ہے، اس لیے دور سے دیکھنے ہی پر اس کے مکانات کا طرزِ تعمیر ’’تبتی مونٹیسوری‘‘ جیسا دکھائی دیتا ہے۔ اس میں بنے تقریباً سبھی مکانات ایک ہی طرز پر بنے اور ایک ہی رنگ کے سفید ہیں۔ تیز دھوپ میں ان کی چمک اتنی تیز ہوتی ہے کہ ان پر نظر نہیں ٹکتی…… اور اس طرف دیکھنے پر بندے کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔
سکردو، کارگل یا کرگل روڈ بننے سے پہلے خپلو کو جانے والا رستہ دریا کے دوسری جانب ہوا کرتا تھا۔ اسی لیے سکردو سے لے کر خپلو تک دریا کے ساتھ ساتھ دوسری طرف بہت سے گاؤں دیکھنے کو ملتے ہیں…… جن کے اندر بہت سی آبادی ہے۔
’’کریس‘‘ کے ساتھ ہی ’’گون‘‘ نامی گاؤں ہے، جو کریس سے نسبتاً چھوٹا ہے۔ ان دونوں گاوؤں کے درمیان ’’بلائنڈ لیک‘‘ نامی جھیل آتی ہے ۔
’’کریس‘‘ بڑی آبادی والا قصبہ ہے۔ اس میں تحصیل آفس کے علاوہ نیشنل بینک کی ایک برانچ بھی ہے…… جب کہ ایک مرکزی جامع مسجد اہل حدیث، سول ہسپتال، ایف سی ہسپتال، مسجدِ زینیہ کھرگونگ، مسجدِ صوفیہ امامیہ اور نور بخشیہ یلجگ، تھک شاہا، آرزو اور عارف نام کے تین بڑے جنرل سٹور ہیں۔ اس کے علاوہ الاثر پبلک سکول بھی ہے۔
’’کریس‘‘ کے ساتھ ہی ’’کیلس‘‘ کا علاقہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی قابل دید مساجد اور مختلف شان دار عمارات ہیں، لیکن ’’کریس‘‘جیسی ’’لُک‘‘ سکردو کے کسی اور گاؤں کی نہیں، جو پہلی نظر میں دیکھنے والے کو مبہوت کرکے رکھ دیتی ہے اور بندہ چار و ناچار انھی قدموں پر رُک جاتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










