ماحولیاتی تبدیلی اور سوات کا مستقبل

Blogger Miraj Ahmad

’’گلوبل وارمنگ‘‘ (Global Warming) آج کے دور کا وہ سنگین ماحولیاتی مسئلہ ہے، جس کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ یہ اصطلاح زمین کے درجۂ حرارت میں بہ تدریج اضافے کو ظاہر کرتی ہے، جو انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں ہو رہا ہے۔ فضا میں گرین ہاؤس گیسز کی مقدار میں اضافے کی وجہ سے سورج کی حرارت زمین کے گرد جال کی صورت اختیار کرلیتی ہے، جو زمین کو گرم کرتی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والی گیسیں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ اور فلورینیٹڈ گیسز ہیں۔
یہ گیسیں زیادہ تر فوسل فیولز کے جلنے سے خارج ہوتی ہیں، جو صنعتی سرگرمیوں، بجلی کے پیداواری ذرائع، گاڑیوں اور گھریلو ایندھن کے ذریعے ماحول میں شامل ہوتی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی گلوبل وارمنگ کو بڑھا رہی ہے۔ کیوں کہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں۔ جب درخت کم ہوجاتے ہیں، تو یہ گیسیں فضا میں موجود رہتی ہیں اور ماحول کو گرم کرتی ہیں۔
گلوبل وارمنگ کے اثرات دنیا کے ہر خطے میں مختلف انداز سے محسوس کیے جا رہے ہیں، لیکن پہاڑی علاقے، جن میں پاکستان کی حسین وادی ’’سوات‘‘ بھی شامل ہے، ان تبدیلیوں سے خاص طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔
سوات کو مشرق کا ’’سوئٹزرلینڈ‘‘ کہا جاتا ہے، جوکہ برف سے ڈھکی پہاڑیوں، بہتے چشموں، گہرے سبز جنگلات اور دل کش مناظر کے لیے مشہور ہے…… مگر یہ وادی اب موسمیاتی تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے اور اس کے قدرتی حسن کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔
سوات میں موسمی پیٹرن میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔ پہلے جہاں سردیوں میں مستقل برف باری ہوتی تھی، وہاں اب برف باری کا دورانیہ کم ہوگیا ہے اور گرمی کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس سے علاقے کے گلیشیر، جوکہ مقامی دریاؤں کا اہم ذریعہ ہیں، تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اگر یہی صورتِ حال برقرار رہی، تو آنے والے برسوں میں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ بن سکتی ہے، جو زراعت، بجلی اور انسانی زندگی کو متاثر کرے گی۔
بارشوں کے نظام میں بھی عدم توازن آچکا ہے۔ پہلے موسمِ بہار اور مون سون کے دوران میں متوازن بارشیں ہوتی تھیں، اب یا تو شدید بارشیں آتی ہیں، جو طوفانی سیلاب کا سبب بنتی ہیں، یا پھر خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس عدم توازن نے سوات کے زرعی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ کسانوں کی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں، جس سے ان کا روزگار اور علاقائی معیشت خطرے میں پڑ گئی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی نے سوات کی ’’حیاتیاتی تنوع‘‘ (Biodiversity) کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ سرد موسم سے مانوس پرندے اور جانور، جن کا انحصار مخصوص موسمی حالات پر ہوتا ہے، اَب یا تو نقلِ مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں، یا معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس سے سوات کے قدرتی نظام میں ایک ایسا خلل پیدا ہو رہا ہے، جو انسانوں سمیت تمام جان داروں کے لیے خطرناک ہے ۔
یہ سب کچھ صرف سوات تک محدود نہیں۔ گلوبل وارمنگ کی یہ لہر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ کراچی جیسے ساحلی شہر ’’سی لیول رائز‘‘ (سمندر کی سطح میں اضافہ) کے خطرے سے دوچار ہیں، جب کہ بلوچستان اور تھر جیسے علاقے پانی کی شدید قلت اور گرمی کی لہر (Heatwave) کا سامنا کر رہے ہیں۔
ان مسائل کا حل صرف حکومتی پالیسیوں یا بین الاقوامی معاہدوں پر منحصر نہیں، بل کہ ہر فرد کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ہمیں درخت لگانے کی مہم کو فروغ دینا ہوگا، غیر ضروری گاڑیوں کے استعمال سے پرہیز کرنا ہوگا، توانائی کے متبادل ذرائع جیسے شمسی توانائی (Solar Energy) اور پن بجلی (Hydro Power) کو اپنانا ہوگا اور پلاسٹک کا استعمال کم کرنا ہوگا۔
اسکولوں، کالجوں اور کمیونٹی سینٹروں میں ماحولیاتی شعور اُجاگر کرنا بھی نہایت ضروری ہے، تاکہ نئی نسل اس خطرے کو سنجیدگی سے سمجھے۔
سوات جیسے علاقے، جو قدرت کی نعمتوں سے مالا مال ہیں، کو بچانا ہماری اجتماعی ذمے داری ہے۔
اگر ہم نے ابھی اقدام نہ اُٹھایا، تو ہماری آنے والی نسلیں نہ سوات کی خوب صورتی دیکھ سکیں گی، نہ اس کے دریا، پہاڑ اور گلیشیر ہی باقی رہیں گے۔
گلوبل وارمنگ کا مقابلہ صرف ماہرینِ ماحولیات کا فرض نہیں، بل کہ ہر اُس انسان کی ذمے داری ہے، جو اس زمین پر سانس لے رہا ہے۔
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے