باجوڑ، مولانا عبدالرشید کی خاموش مزاحمت

Blogger Hilal Danish

باجوڑ……!
ایک ایسی سرزمین جہاں صبح کی روشنی امن کی اُمید نہیں، بل کہ کسی اور جنازے کی خبر لاتی ہے…… جہاں اذانیں بم دھماکوں کی گونج میں دب چکی ہیں……جہاں ہر محلے میں ایک شہید کی تصویر ہے اور ہر دل میں ایک قبر کا درد۔
باجوڑ وہ خطہ ہے، جسے ریاست نے دہائیوں تک جنگی اسٹیج بنائے رکھا۔ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی ریاستی مفاد کے نام پر اور کبھی صرف خاموشی کے جرم میں یہاں کے باشندے سزاوار ٹھہرے۔ ان حالات میں اگر کوئی شخص سینہ تان کر، آنکھوں میں آنسو لیے، مگر دل میں فولادی حوصلہ لیے ہر جنازے میں شریک ہو، تو وہ محض ایک انسان نہیں رہتا، وہ قوم کی علامت بن جاتا ہے…… اور یہی شخصیت ہے: بابائے امن، سابق سینیٹر مولانا عبدالرشید۔
٭ دکھوں کی ترجمانی کرتی ایک تصویر:۔ حال ہی میں ایک تصویر منظرِ عام پر آئی۔ مولانا عبدالرشید ایک بچے کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، چہرے پر دکھ کا گہرا سایہ ہے، مگر ہاتھوں میں تسلی، الفاظ میں حوصلہ اور وجود میں ایک ماں جیسی شفقت۔
مذکورہ تصویر کوئی عام لمحہ نہیں، بل کہ پورے باجوڑ کی اجتماعی اذیت کا مکمل ترجمان ہے۔ یہ ان زخموں کا نوحہ ہے، جو ہر روز یہاں کے سینوں پر لگتے ہیں۔ یہ صبر کی تصویری زبان ہے، جو پختون روایات میں مردانگی کہلاتی ہے، مگر حقیقت میں ایک زخم خوردہ دل کی خاموش چیخ ہے۔
٭ مولانا عبدالرشید، صرف ایک سیاسی راہ نما نہیں:۔ مولانا عبدالرشید کی شخصیت صرف ایک سیاست دان کی نہیں، بل کہ ایک سماجی اور روحانی راہ نما کی ہے۔ وہ جب کسی شہادت کی خبر سنتے ہیں، تو یہ نہیں پوچھتے کہ شہید کس جماعت سے تھا؟ وہ نہ تحریک انصاف دیکھتے ہیں، نہ اے این پی، نہ ریاستی عہدہ…… ان کے لیے شہید، شہید ہوتا ہے اور شہید کا گھر، اُن کا اپنا گھر۔ وہ شہید ریحان زیب (تحریک انصاف) ہو، یا مولانا خان زیب (اے این پی)، یا فیصل اسماعیل (ریاستی افسر) مولانا عبدالرشید ہر دروازے پر موجود ہوتے ہیں۔ ان کے وجود سے باجوڑ کے لوگ یقین کرتے ہیں کہ ’’ہم تنہا نہیں ہیں!‘‘
٭ جرات و استقامت کا کوہِ گراں:۔ گذشتہ سال جب جمعیت علمائے اسلام کے ایک عظیم الشان جلسے پر خود کش حملہ ہوا، اور 80 سے زائد افراد شہید ہوئے، تو لمحہ بھر کو لگا کہ شاید مولانا عبدالرشید جیسا حساس شخص ٹوٹ جائے گا۔ میں نے سوچا: ’’یہ شخص کیسے سنبھالے گا اتنے جنازے؟‘‘
مگر مَیں غلط تھا۔ یہ وہ شخصیت تھی جو غم میں فولاد بن گئی، جو اپنے آنسوؤں کو لوگوں کی ڈھارس میں ڈھالتی ہے، اور اپنی تنہائی کو قوم کی قیادت میں تبدیل کرچکی ہے۔
٭ مولانا خان زیب کی شہادت کے بعد:۔ مولانا خان زیب کی شہادت کے بعد وہ جیسے اکیلے رہ گئے، لیکن یہ اکیلا پن اُنھیں توڑ نہ سکا، نہ روک ہی سکا۔ اب ساری ذمے داری اُن کے کاندھوں پر آن پڑی ہے، اور وہ یہ بوجھ ایسے اٹھا رہے ہیں، جیسے ان کے خون میں امت کی قیادت رچی بسی ہو۔
٭ پشاور سے باجوڑ تک،امن کی للکار:۔ حال ہی میں جب باجوڑ میں ایک عظیم الشان امن مارچ نکالا گیا، تو سب سے بلند آواز، سب سے واضح للکار، مولانا عبدالرشید کی تھی۔ وہ ظالم کو للکار رہے تھے،ریاست کو جھنجھوڑ رہے تھے اور قبائل کو بیدار کر رہے تھے ۔ اُسی روز شام کو وہ پشاور میں ’’گرینڈ قبائلی جرگہ‘‘ میں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ موجود تھے۔ یہاں وہ صرف ایک شریک نہیں، بل کہ ایک عوامی نمایندہ، ایک درد کا سفیر اور ایک امت کا ترجمان بن کر کھڑے تھے۔
٭ پختون غیرت اور اجتماعیت کا آئینہ:۔ پختون روایات میں غیرت، دلیری اور رواداری بنیادی ستون ہیں…… مولانا عبدالرشید کی زندگی ان تمام روایات کی عملی تفسیر ہے ۔ ان کی قیادت قبائلی روایات سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ گھر سے نکلتے ہیں، تو بزرگوں کا سایہ بنتے ہیں، جنازوں میں پہنچتے ہیں، تو بھائی بن کر گلے لگتے ہیں اور اجلاسوں میں بیٹھتے ہیں، تو نمایندہ بن کر بولتے ہیں۔
٭ ایک سوال، ایک صدا:۔ آج جب باجوڑ لہو میں نہایا کھڑا ہے، جب ریاستی خاموشی گونگی بن چکی ہے، تو اس وادی کے باسیوں کے پاس اب صرف دو توانا آوازیں باقی رہ گئی ہیں:
٭ ایک مولانا عبدالرشید، جو جنازوں میں امید بانٹتے ہیں۔
٭ دوسرا نثار باز، جو اسمبلی کے ایوان میں باجوڑ کی دھڑکن بنے کھڑے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان دونوں آوازوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے کہ یہی دو چراغ اب اس اندھیرے میں جل رہے ہیں۔
٭کیا ہم اب بھی خاموش رہیں گے؟:۔ مولانا عبدالرشید کا وجود ہم سے سوال کرتا ہے:
٭ کیا ہم واقعی اس درد میں اُن کے شریک ہیں؟
٭ کیا ہم نے قبائلی خطوں کو صرف خبروں تک محدود کر دیا ہے، یا ہم اس جدوجہد کا حصہ بنیں گے؟
ان کی شخصیت صرف باجوڑ کے لیے نہیں، بل کہ پورے پاکستان کے لیے ضمیر کا آئینہ ہے۔
مولانا عبدالرشید، آپ باجوڑ کے نہیں، قبائل کے نہیں، بل کہ اس پورے ظلم زدہ معاشرے کی آخری اُمید ہیں۔ اللہ آپ کے حوصلے سلامت رکھے، اور ہمیں آپ جیسے لوگوں کے سائے میں جینے کا شعور عطا فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے