پروفیسر ڈاکٹر کامران جلیل

Blogger Engineer Miraj Ahmad

استادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر کامران جلیل صاحب کا شمار اُن اساتذہ میں ہوتا ہے، جن کی تعلیم صرف کتابوں تک محدود نہیں ہوتی، بل کہ اُن کی شخصیت، طرزِ تدریس اور علم کا انداز دل و دماغ پر نقش چھوڑ جاتا ہے۔
گورنمنٹ ڈگری کالج حیات آباد پشاور میں کمسٹری پروفیسر کے طور پر اُن کی موجودگی کسی علمی چراغ کی مانند تھی، جو نہ صرف روشنی پھیلاتا، بل کہ ذہنوں کو بھی جِلا بخشتا۔
2022ء میں استادِ محترم کی 19 گریڈ میں ترقی ہوئی اور اُن کا تبادلہ گورنمنٹ ڈگری کالج متھرا ہوا۔ آج کل پروفیسر صاحب گورنمنٹ ڈگری کالج متھرا میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
کیمسٹری جیسا مضمون، جو اکثر طلبہ کے لیے خشک اور پیچیدہ سمجھا جاتا ہے، پروفیسر کامران جلیل صاحب کی تدریس سے ایک دل کش اور معنی خیز تجربہ بن جاتا۔ اُن کا لیکچر صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتا، بل کہ ایک مکمل فکری سفر ہوتا، جس میں ایٹمز، مالیکیولز اور کیمیکل بانڈز جیسے پیچیدہ نظریات انسانی فہم کے قریب آ جاتے۔ وہ کلاس میں جب کیمیائی تعاملات (Chemical Reactions) کی وضاحت کرتے، تو یوں محسوس ہوتا، جیسے یہ تمام عمل روزمرہ زندگی کا حصہ ہوں۔ چاہے وہ الیکٹرانز کی گردش ہو، یا بانڈنگ کا تصور، اُن کی زبان سے سن کر ہر تصور دل میں اُتر جاتا۔ اُن کی ایک بات، جو مَیں تا قیامت یاد رکھوں گا۔ وہ یہ کہ جب ایف ایس سی کے 10 سال بعد ہمارے کلاس کا ایک ’’وٹس ایپ گروپ‘‘ بنا، تو وہ مجھے اس وقت کے رول نمبر سے مخاطب کرتے۔ ایسے اساتذہ بہت کم ہوتے ہیں، بل کہ ہوتے ہی نہیں، جو اپنے شاگرد کا رول نمبر 10 سال بعد بھی یاد رکھتے ہیں۔
پروفیسر صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر تصور کو عملی مثالوں کے ذریعے سمجھاتے۔ مثلاً: وہ جب تیزاب اور اساس (Acid-base Reactions) پر بات کرتے، تو صرف فارمولوں پر اکتفا نہ کرتے، بل کہ ہمارے کچن میں موجود اشیا جیسے لیموں، بیکنگ سوڈا یا سرکہ کو بہ طور مثال پیش کرتے۔ ایسے طریقۂ کار سے طلبہ کو یہ محسوس ہوتا کہ کیمسٹری صرف تجربہ گاہ تک محدود نہیں، بل کہ ہماری زندگی کے ہر گوشے میں شامل ہے۔
اُن کا اندازِ گفت گو نہایت شایستہ، مدلل اور سادہ ہوتا۔ وہ طالب علموں کے سوالات کو نہایت صبر سے سنتے اور ہر ایک کی ذہنی سطح کو مدِنظر رکھتے ہوئے جواب دیتے۔ کبھی کسی سوال پر ناراض نہ ہوتے، بل کہ اکثر فرماتے: ’’اچھے سوال وہ ہوتے ہیں، جو سوچنے پر مجبور کر دیں، چاہے وہ سادہ ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
پروفیسر کامران جلیل صاحب نے نہ صرف کیمسٹری پڑھائی، بل کہ سائنسی سوچ کو پروان چڑھایا۔ وہ سکھاتے تھے کہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے مشاہدہ، تجربہ اور تجزیہ ضروری ہے۔ یہی سائنسی رویہ اُن کی تدریس کا اصل نچوڑ تھا۔ اُن کے شاگرد نہ صرف کیمسٹری میں مہارت حاصل کرتے، بل کہ ایک منطقی اور حقیقت پسند سوچ کے حامل بن جاتے۔
یادگار تجربات میں سے ایک وہ دن تھا جب انھوں نے ’’ریڈاکس ری ایکشنز‘‘ کو سمجھانے کے لیے کلاس میں ایک چھوٹا سا تجربہ کیا۔ اُنھوں نے لوہے کے کیل کو تیزاب میں ڈالا اور تبدیلی کا مشاہدہ کروایا۔ پھر اُسی کو معاشرتی رویوں سے تشبیہ دی کہ ’’جب غلط ماحول میں اچھے لوگ پڑتے ہیں، تو یا تو وہ بدل جاتے ہیں یا ماند پڑ جاتے ہیں، بالکل جیسے آئرن کا کیل آکسیڈائز ہو جاتا ہے۔‘‘ ان کا یہ انداز ہمیں سائنسی تصورات کو زندگی سے جوڑنے کا ہنر سکھاتا تھا۔
ایسے اساتذہ کم ہی ملتے ہیں، جو محض مضمون ہی نہیں پڑھاتے، بل کہ کردار کی تعمیر بھی کرتے ہیں۔ پروفیسر صاحب نہ صرف ایک ماہرِ تعلیم تھے، بل کہ ایک راہ نما بھی تھے، جنھوں نے علم کے ساتھ اخلاق، تجسس اور شعور کا چراغ جلایا۔ اُن کے دیے گئے اسباق صرف امتحانات کے لیے نہیں، بل کہ زندگی کے لیے ہیں…… اور یہی ایک عظیم استاد کی پہچان ہے۔ اللہ تعالیٰ پروفیسر صاحب کو لمبی خوش حال اور صحت مند زندگی دے، آ مین ثم امین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے